Live Updates

انتخابات سے چند روز قبل ہی مسلم لیگ ن کے لیے بُری خبر آ گئی

مسلم لیگ ن کے لیے اپنے گڑھ سمجھے جانے والے شہروں لاہور،قصور اور شیخوپورہ سے چند سیٹیں نکالنا مشکل ہو گیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 19 جولائی 2018 14:31

انتخابات سے چند روز قبل ہی مسلم لیگ ن کے لیے بُری خبر آ گئی
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19 جولائی 2018ء) : عام انتخابات 2018ء سے قبل ہی مسلم لیگ ن کی پریشانیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کی قیادت بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے اپنے گڑھ سمجھے جانے والے شہروں سے چند سیٹیں نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے جبکہ عوام نے بھی مسلم لیھگ ن کےاُمیدواروں سے منہ پھیر لیا ہے جس پر پارٹی قیادت کافی پریشان ہے۔

قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے شہروں میں کروائے گئے حالیہ سروے میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کھُل کر سامنے آگئی ہے جس نے مسلم لیگ ن کے ہوش اُڑا دئے ہیں۔ان سروے کے مطابق لاہور میں ن لیگ کو تین نشستوں پر دس فیصد برتری جبکہ قصور اور شیخوپورہ میں پاکستان تحریک انصاف کلین سویپ کر سکتی ہے ۔

(جاری ہے)

مصدقہ ذرائع کے مطابق سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ میاں نوازشریف کے جیل جانے اور الیکشن سے قبل ضمانت نہ ہونے، لاہور میں فلاپ شو ہونے اور ن لیگی کارکنوں کی الیکشن میں عدم دلچسپی کے باعث ن لیگ کا ان تمام بڑے حلقوں،جو ان کا گڑھ سمجھے جاتے تھے،سے انتخاب جیتنا مشکل نظر آ ر ہا ہے۔

سروے رپورٹس میں یہ واضح لکھا گیا کہ کہ بڑی تعداد میں وہ مذہبی ووٹ جو ہمیشہ ن لیگ کے ساتھ ہوتا تھا آج ختم نبوت قانون میں ترمیم کی وجہ سے ن لیگ سے سخت نالاں ہے ،اور یہی چیز ان علاقوں میں مسلم لیگ ن کی ناکامی اورشکست کی وجہ بنے گی۔ سروے رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ن لیگ کو ان انتخابات میں انتظامیہ ، پولیس اور دیگر محکموں کی سپورٹ حاصل نہیں ۔

این اے 123کے حوالے سے لکھا گیا کہ یہاں پر ککے زئی راجپوت او ر آرائیں ووٹرز ہیں پہلی مرتبہ اس حلقہ میں ککے زئی ووٹ تقسیم ہو گا ۔اس حلقہ میں ن لیگ کو سب سے زیادہ نقصان تحریک لبیک کے اُمیدوار کی وجہ سے ہو گا ۔تحریک لبیک کے اُمیدوار لطیف سرا کا ساتھ جو ووٹرز دے رہے ہیں ان میں سے اکثریت گذشتہ الیکشن میں ن لیگ کے ساتھ تھی این اے 124 پانچ روز پہلے تک ن لیگ کے لیے مضبوط ترین حلقہ تھا ۔

یہاں سے ن لیگ کے حمزہ شہباز اور تحریک انصاف کے نعمان قیصر اُمیدوار ہیں۔ اس حلقہ میں پیپلزپا رٹی کے اُمیدوار چودھری ظہیر نے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں دستبردار ہو کر اس حلقہ میں بھی الیکشن کو دلچسپ مرحلہ میں داخل کر دیا ہے ۔این اے 125میں تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو بہتر پوزیشن میں بتایا گیا ہے ۔ این اے 126میں بھی تحریک انصاف کو فیورٹ قرار دیا گیا، اس حلقہ میں تحریک انصاف کے حماد اظہر کا مقابلہ تحریک لبیک کے وقاص احمد اور ن لیگ کے مہر اشتیاق کا مقابلہ بتا یا جا رہا ہے حماد اظہر کو واضح برتری حاصل ہے ۔

این اے 127میں ن لیگ کے علی پرویز ملک اور تحریک انصاف کے جمشید چیمہ میں سخت مقابلہ ہو گا علی پرویز ملک کو فی الحال برتری حاصل ہے ۔این اے 128میں ن لیگ کے امیدوار شیخ روحیل اصغر اور پی ٹی آ ئی کے اعجاز ڈیال میں سخت مقابلہ ہے ۔ این اے 129میں سردار ایاز صادق اور عبد العلیم خان کے درمیان مقابلہ ہے اس حلقہ میں عبد العلیم خان کوواضح برتری حاصل ہے ۔

این اے 130میں خواجہ حسان اور شفقت محمود کے درمیان مقابلہ ہے یہاں بھی تحریک انصاف کا امیدوار آ گے ہے ۔ این اے 131میں خواجہ سعد رفیق اور عمران خان کے درمیان مقابلہ ہے یہاں ہمایوں ا ختر خان کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد تحریک انصاف کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی ہے ۔ قومی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ این اے 132میں ن لیگ کے میاں شہباز شریف اور تحریک انصاف کے منشا سندھو اور پیپلزپا رٹی ثمینہ خالد گھرکی کے درمیان مقابلہ ہے یہاں پر بھی دلچسپ مقابلہ ہو گا ۔

شہباز شریف کو اس حلقہ میں برتری حاصل ہے ۔ این اے 133میں تین امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے ، ن لیگ کے پرویز ملک ، تحریک انصاف کے اعجا ز چودھری اور آ زاد امیدوار زعیم قادری میں سخت مقابلہ ہے ۔ اعجاز چودھری اور زعیم قادری بہتر پوزیشن میں ہیں ۔ این اے 134میں ن لیگ کے رانا مبشر تحریک انصاف کے ظہیر عباس کھوکھر کے درمیان سخت مقابلہ ہے اس حلقہ میں ظہیر عباس کھوکھر کو برتری حاصل ہے ۔

این اے 135سیف الملکوک کھوکھر اور کرامت کھوکھر میں سخت مقابلہ ہے دونوں کی ہار جیت کا مارجن چند سو ووٹوں کا ہو سکتا ہے ۔ این اے 136میں ن لیگ کے افضل کھوکھر اور تحریک انصاف کے اسد کھوکھر میں کانٹے دار مقابلہ ہے اسد کھوکھر اس وقت تک برتری حاصل ہے ۔ سروے رپورٹ کے مطابق لاہور شیخوپورہ اور قصور ان تینوں شہروں میں ن لیگ کو سب سے زیادہ نقصان ختم نبوت قانون میں ترمیم کے حوالے سے مذہبی ووٹ کے ناراض ہوجانے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے اُمیدوار کو ملنے ولے ووٹ میں 85 فیصد ن لیگی ووٹرز ہی ہیں جنہوں نے گذشتہ انتخابات میں ن لیگ کو سپورٹ کیا تھا۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات