یورپین پارلیمنٹ کی تنازعہ کشمیر کی70سالہ تاریخ اور جنوبی ایشیاء پر اسکے اثرات کے بارے میں رپورٹ جاری

مسئلہ کشمیر70سال سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک حل طلب تنازعہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کے دوطرفہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں

جمعرات 19 جولائی 2018 15:20

برسلز (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 جولائی2018ء) یورپین پارلیمنٹ نے تنازعہ کشمیر کی ستر سالہ تاریخ ، جنوبی ایشیاء پر اسکے منفی اثرات ، اقوام متحدہ کی کشمیر بارے قراردادوں ،بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے کشمیری عوام کی جدوجہد اور انسانی حقوق کی پامالیوںکے بار ے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے ۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ’’کشمیر:تنازعے کے ستر سال ‘‘کے عنوانی سے یہ دستاویز یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے پارلیمنٹ کے اراکین اور حکام کے لیے جاری کی ہے تاکہ وہ مسئلہ کشمیر کو بہتر طورپر سمجھ سکیں۔

رپورٹ میں مسئلہ کشمیر کے آغازسے لے کر اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق زید الرعد الحسین کی طرف سے رواںسال جون میں کشمیر کے بارے میں پہلی رپورٹ کے اجرا تک کے واقعات شامل ہیں جس میں مقبوضہ کشمیر میںلاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی اور بڑے پیمانے پر جاری انسانی حقوق کی پامالیوں ، اس کے نتیجے میں شہادتوں اور بڑی تعدادمیں زخمی ہونیوالے افراد کیلئے کمیشن تشکیل دینے کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جموںوکشمیر بھارت ، پاکستان اور چین کے درمیان واقع ہے جو سترسال سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک حل طلب تنازعہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کے دوطرفہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور جنوبی ایشیاء میں امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں’’اقوام متحدہ کی مداخلت اور رائے شماری جو کبھی منعقدہ نہیں ہو سکی ‘‘کے ذیلی عنوان سے بھی پیرا گرام شامل کیا گیا اور بتایاگیا ہے کہ کشمیر کی موجودہ زمینی تقسیم کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم نہیں ہو سکی۔

رپورٹ میں اگست 1947میں تقسیم برصغیر اورمہاراجہ ہری سنگ کی طرف سے جموںوکشمیر کے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق ، 1948میں اقوام متحدہ کی طرف سے بھارت اور پاکستان کیلئے تنازعے کی تحقیق اور ثالثی کیلئے کمیشن کی تشکیل ، عالمی ادارے کی منظور کی گئی قراردادوں،رائے شماری کیلئے سازگار ماحول قائم کرنے کی غرض سے 1949کی جنگ بندی کے معاہدے ،بھارت اور پاکستان کی طرف سے کنٹرول لائن کی نگرانی کیلئے عالمی ادارے کی فوجی مبصرین کی تعیناتی پر اتفاق جیسے اہم واقعات کو بھی شامل کیاگیا ہے ۔

رپورٹ میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ، شملہ معاہدہ جس کے تحت دونوںملکوں نے اپنے اختلافات دوطرفہ مذاکرات یا کسی دوسرے پر امن طریقے کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیاتھا کا بھی ذکرکیاگیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 1989سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف تحریک جاری ہے جہاں انتہائی بے روزگاری ہے اور سات لاکھ سے زائد فورسز اہلکار تعینات ہیں جو طاقت کے بل پر اسی لاکھ کی آبادی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 1999میں محدود نوعیت کی کارگل جنگ لڑی گئی جبکہ 2005میں کنٹرول لائن کے دونوں جانب بس سروس جبکہ 2008میں تجارت شروع کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے 2008میں کنٹرول لائن کے قریب ایک ہزار کے لگ بھگ گمنام اجتماعی قبریں دریافت کیں۔ یورپی پارلیمنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں برس جون میں اقوام متحدہ نے کشمیرمیں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی پہلی رپورٹ میں مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کیلئے ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے پر زور دیا اور عالمی ادارے کے انسانی حقوق کمشنر زید رعد الحسین نے بھارتی فورسز کی طرف سے کشمیریوں پر طاقت کا بے تحاشا استعمال بند کرنے پر زور دیا جو لوگوں کے ماورائے قانون قتل اور بڑی تعداد میں زخمی کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ،پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ کے سبب بھارتی فورسز کو لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے، خواتین کی آبروریزی اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں پر کسی قسم کی جواب دہی سے استثنیٰ حاصل ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ہجوم کو قابو کرنے کیلئے بھارتی فورسز کی طرف سے پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے 2016سے سینکڑوں کشمیری بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔