دیامر بھا شا ڈیم کی تعمیرنوملک کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے،حافظ حفیظ الرحمان

بین الصوبائی تنازعات کو حل کرنے کے بعدہی ڈیم کی تعمیریقینی ہوگی، چندوں سے ڈیمزتعمیر نہیں کئے جاتے ،وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان

جمعہ 20 جولائی 2018 23:36

دیامر بھا شا ڈیم کی تعمیرنوملک کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے،حافظ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 جولائی2018ء) وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے کہا ہے کہ دیامر بھا شا ڈیم کی تعمیرنوملک کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ بین الصوبائی تنازعات کو حل کرنے کے بعدہی ڈیم کی تعمیریقینی ہوگی۔ چندوں سے ڈیمزتعمیر نہیں کئے جاتے۔دیامربھاشاڈیم کی سنگ بنیاد پہلی مرتبہ 2006 میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے رکھی اس کے بعد 2010 میں (ECC) سے منظوری کے بعد اس زمانے کی حکومت نے متاثرین ڈیم کے ساتھ ایک معاہدہ کیاگیا۔

جس کے دو سے تین سالوں میں لینڈ ریکوزیشن سمیت تمام متنازعات کا حل طے پانا لازمی قرار دیا گیا۔ لیکن اس زمانے کی حکومت فنڈ فراہم نہ کر سکی جس وجہ سے لینڈ ریکوزیشن کا مرحلہ تعطل کا شکار رہا۔جب 2014 میں ملک کے وزیر اعظم نواز شریف تھے انہوں نے اس ڈیم کی تعمیر کو سنجیدہ لیتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ دیامر بھاشہ ڈیم کے پہلے مرحلے کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔

(جاری ہے)

صوبائی حکومت نے چھ مہینے قلیل عرصے میں 90 فیصد لینڈ ریکوزیشن مکمل کی اورزمینوں کے مقامی مالکان کو 52 ارب کی ادئیگی بھی کر دی۔ خوش کن امر یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ سپارکو کی مدد اور سیٹلائٹ کے ذریعے ڈیم کی زمین لینڈ ریکوزیشن مکمل ہوئی جس کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈال دی گئی جسے ہر شخص کہیں بھی بیٹھا دیکھ سکتا ہے صوبائی حکومت نے سپارکو کے تعاون سے لینڈ ریکوزیشن کی مد میں 8 ارب روپے کی قومی خزانے کو بچت بھی کروائی جو کہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم کے پہلے مرحلے کو دو حکومتوں کے گزر جانے کے بعد بھی پانچ فیصد کا م نہ ہو سکا۔ لیکن ہماری حکومت نے اس مرحلے کو انتہائی محدود وقت میں شفاف طریقہ سے مکمل کیا۔لیکن دیامر بھاشا ڈیم کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے پہلے اس دور کی کے پی حکومت مداخلت سے ہر بن اور تھور کے علاقوں میں ہماری حدود پر دھاوا بول دیا گیا جس کی وجہ سے دو قبائل میں ہونے والے خونی تصادم سے نصف درجن سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

بین الصوبائی حدود تنازعے کے بعد دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ جمود کا شکار ہو گیا۔ کیونکہ گلگت بلتستان قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا کسی بھی قسم کا ممبر نہیں ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کو چاہئے کہ وہ چندوں کی بجائے بنیادی ضروری اور تکنیکی رکاوٹیں دور کرنے میں کردار ادا کریں جو ڈیم کی تعمیر کے دوسرے مرحلے میں رکاوٹ ہیں۔سابق وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو آرڈر 2018 کے نام پر ایک با اختیار ہمہ جہت پیکج دیا تھا جس میں پہلی بار گلگت بلتستان کو قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں بطور مبصر نمائندگی دی گئی لیکن بد قسمتی سے سپریم اپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے گزشتہ دنوں آرڈر 2018 کو معطل کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے جس پر وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا ہے۔

کیونکہ آرڈر 2018 وفاق کا عطا کردہ ہے۔ اور صوبائی حکومت نہ تو سپریم اپلیٹ کورٹ میں اس تنا ظر میں فریق ہے اور نہ ہی پیٹیشنر۔لہٰذا چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو ان قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہربن،تھور کے حدود تنازعے کو خش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے بھی وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔تا کہ ملک بھر میں جاری ڈیم بناؤ شعوری مہم حقیقی معنوں میں کامیاب ہو سکے۔

چندہ مہم سے ڈیمز نہیں بن سکتے۔ صوبائی حکومت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے تعاون سے گزشتہ تین سالوں میں تیز ترین تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کو فروغ دیا۔گلگت بلتستان میں اس وقت 149 ارب کی لاگت پر مبنی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ ہم نے گلگت سکردو روڈ،استور روڈ،گلگت غذر،چترال، چکدرہ روڈ،،بلتستان یونیورسٹی کا قیا م، قرا قرم یو نی ورسٹی کی تین اضافی شاخوں کا قیام،سالٹ ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کا قیام، کار ڈیک ہسپتال،کینسر ہسپتال،شہید سیف الرحمن ہسپتال،انجینئر نگ کمپلیکس اور پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں ایم آر آئی کی سہولت فراہم کی جبکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طلبات کو فیسوں کی ادائیگی پورے صوبے میں اول سے لیکر نہم تک سرکاری سکولوں میں مفت کتابوں کی فراہمی پہلی مرتبہ این ٹی ایس کے ذریعے اساتذہ کی شفاف بھر تیاں اور ہزاروں نوکریوں کی میرٹ کی بنیاد پر فراہمی کو یقینی بنایا۔

جبکہ سیاحت کے فروغ کیلئے خطہ میں امن و امان کا قیام یقینی بنایا گیا جس پر تمام وسائل بروئے کار لائے گئے۔پولیس کو پہلی بار ضرورت کا تمام تر سازو سامان فراہم کیا۔تمام شعبوں میں نئی اصلاحات کا نفاذ کیا اور وہ صوبہ جس میں 2015 تک کل 180 ڈاکٹر تھے ہم نے خصوصی مراعات دے کر صرف تین سالوں میں ڈاکٹروں کی تعداد 5 سو تک بڑھائی ہے۔ تمام ڈویڑن میں موبائل ہسپتال فراہم کی گئیں اور ایمر جنسی ادویات کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔

گلگت بلتستان وہ صوبہ ہے جہاں صرف تین سالوں میں ہم نے 64 میگاواٹ بجلی میں اضافہ کیا جبکہ کے پی حکومت پانچ سالوں میں صرف 34 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکی مگر ان پر اشتہارات کی مد میں اربوں روپے خرچ کیے۔ ماضی کی حکومتیں صرف دعوے کرتی رہیں۔ ہم نے اپنے تین سالوں میں گلگت بلتستان میں تین نئے اضلاع قائم کر کے انہیں فعال کیا۔ دیا مر بھاشہ ڈیم کا علاقہ ضلع دیامر چونکہ ایک غیر بندو بستی علاقہ ہے اور زمینیں عوام کی ملکیت ہیں ان کی زمینیں زیر آب آ رہی ہیں۔ لہٰذا ان کے معا و ضہ جات اور دیگر وعدوں کی تکمیل ضروری ہے۔ راٹھور