جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا متنازعہ اور قابل اعتراض بیان، وکلاء میں شدید بے چینی

جسٹس شوکت عزیز صدیقی وکلاء کو پیشہ وارانہ اخلاقیات پر لیکچر دینے گئے تھے لیکن خود یہ بھول گئے کہ ایک اعلیٰ عدلیہ کے جج کی کیا ذمہ داریاں اور اخلاقیات ہیں بیان پر دکھ اور افسوس ہوا،ردعمل مشورے کے بعد دیں گے، جڑواں شہروں کے وکلاء کی گفتگو

ہفتہ 21 جولائی 2018 23:37

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا متنازعہ اور قابل اعتراض بیان، وکلاء میں شدید ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جولائی2018ء) ہائی کورٹ اسلام آباد کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متنازعہ اور قابل اعتراض بیان پر وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے وکلاء میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ جڑواں شہروں کے وکلاء کا کہنا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی وکلاء کو پیشہ وارانہ اخلاقیات پر لیکچر دینے گئے تھے لیکن خود یہ بھول گئے کہ ایک اعلیٰ عدلیہ کے جج کی کیا ذمہ داریاں اور اخلاقیات ہیں ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چوہدری اشرف گجر نے آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان پر دکھ بھی ہوا اور افسوس بھی ہوا لیکن اس پر ردعمل تمام دوستوںکے مشورے کے بعد دیں گے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے وکلاء کی بڑی تعداد جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے دیئے گئے بیان پر حیران اور ششدر ہے۔

(جاری ہے)

زیادہ تر وکلاء کا کہنا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اگر اس قسم کا بیان اس وقت دیتے جب ان کے خلاف کچھ بھی نہ ہوتا تو ان کی بات میں وزن بھی ہوتا لیکن ایک معتبر ادارے سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے اور اس ریفرنس میں ان کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور کرپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ریفرنس کی سماعت 29 جولائی کو کھلی عدالت میں ہونے جارہی ہے اور 29 جولائی کو ہونے والی سماعت بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مطالبے پر کھلی عدالت میں کی جارہی ہے لہذا ریفرنس سے سرخرو ہوکر جسٹس شوکت عزیز صدیقی اگر یہ بیان جاری کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا اور یا پھر انہیں مستعفی ہوکر ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان کے بعد جڑواں شہروں کے وکلاء اس حوالے سے ایک اصولی سٹینڈ لینے کیلئے مشاورت بھی کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سی ڈی اے کے ایک ملازم نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کر رکھا ہے جس میں مصدقہ دستاویزات کے ساتھ الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ کیلئے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف سے خصوصی حکم نامہ حاصل کیا اور پھر وہ رہائش پسند نہ آنے پر ایک دوسرا گھر پسند کیا اور یہ گھر پہلے سابق صدر پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے زیر استعمال تھا۔

گھر کی الاٹمنٹ حاصل کرنے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خلاف قانون اس کی تزئین و آرائش کیلئے سی ڈی اے کے عہدیداروں کو مجبور کیا کیونکہ یہ گھر پاک پی ڈبلیو ڈی کے پول پر تھا اور پاک پی ڈبلیو ڈی ہی اس گھر کی تزئین و آرائش کی ذمہ دار تھی لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پی دبلیو ڈی کے افسران سے این او سی لے کر سی دی اے کے افسران کو دیا اور پھر اس سرکاری رہائش کی مرمت اور خوبصورتی پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے لگا دیئے گئے جس کے دستاویزی ثبوت ریفرنس کے ساتھ منسلک کئے گئے ہیں علاوہ ازیں اس ریفرنس میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے دیرینہ یار کو نوازنے کیلئے سی ڈی اے کو مجبور کیا کہ وہ اس کا کم مالیت کا پلاٹ قیمتی پلاٹ میں تبدیل کرے اور سی ڈی اے کے افسران یہ حکم مان کر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے دوست کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا ۔

مزید برآں ریفرنس کے مدعی علی انوار گوپانگ نے دستاویزات میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سی ڈی اے افسران کو مجبور کرکے اپنے ایک دوست کی بیٹی کو بھرتی کروایا اور بیٹے کی نوکری کو مستقل کروایا۔ علاوہ ازیں فاضل جج کے حکم پر سی ڈی اے نے سرکاری رہائش گاہ میں کبوتروں کا خصوصی پنجرہ بھی بنا کر دیا۔ زیادہ تر وکلاء کا خیال ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ایسے بیان دے رہے ہیں۔

کچھ وکلاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو قابل اعتراض بیان دینے کا موقع اس لئے ملا کہ ہماری سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے خلاف ریفرنسز کو سالہا سال تک التواء میں ڈالے رکھتی جس کی وجہ سے الزام کی زد میں آنے والے ججوں کو تحفظ کیلئے چھتری تلاش کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں ہمیشہ اعلیٰ عدالتوں پر زور دیا کہ ججوں کے خلاف ریفرنس جلد نمٹائے جائیں جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل سمیت چار صوبوں کی ہائی کورٹس بار ایسوسی ایشن بھی پر زور مطالبات کر چکی ہے کہ ججوں کے خلاف ریفرنس کو سپریم جوڈیشل کونسل جلد نمٹائے لیکن ان مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔