عام انتخابات کے موقع پر انتظامات قابل اطمینان ہیں، نواز شریف کو جیل مینوئل کے مطابق سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ‘ وزیرقانون

اگر کسی کو شکایت ہے تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتاہے،حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کر رہی جس کی آنیوالی حکومت پابند ہو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کے حوالے سے تحقیقات کا کام عدلیہ کا ہے ،اس سے قبل کسی کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے وطن عزیز کو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بلیک لسٹ میں شامل کرنے سے بچانے کیلئے ہم نے کمٹمنٹ کی‘ سید علی ظفر کا خطاب،گفتگو

ہفتہ 21 جولائی 2018 23:37

عام انتخابات کے موقع پر انتظامات قابل اطمینان ہیں، نواز شریف کو جیل ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جولائی2018ء) نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ،قانون سید علی ظفر نے کہا ہے کہ25 جولائی کو عام انتخابات کے موقع پر انتظامات قابل اطمینان ہیں، نواز شریف کو جیل مینوئل کے مطابق سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اگر کسی کو شکایت ہے تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتاہے،حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کر رہی جس کی آنیوالی حکومت پابند ہو، وطن عزیز کو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بلیک لسٹ میں شامل کرنے سے بچانے کیلئے ہم نے کمٹمنٹ کی،جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کے حوالے سے تحقیقات کا کام عدلیہ کا ہے ،اس سے قبل کسی کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔

ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور چیمبر آف کامرس میں یونیفائیڈ میڈیا کلب پاکستان کے زیر اہتمام الیکشن 2018ء‘ آزادی اظہار کے موضوع پر میڈیا کانفرنس سے خطاب اور صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

سید علی ظفرنے کہا کہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدوار خراج تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ وہ ہار اور جیت دونوں صورتوں میں جمہوریت کومضبوط کر رہے ہیں اور جوامیدوار منتخب ہونگے ان پر قومی ایشوز کے حل کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو گی ۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں الیکشن کمیشن کو یہ کردار دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں آزادانہ ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کروائے اور نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے شفاف انعقاد کیلئے الیکشن کے اقدامات کو عملی جامہ پہنائے۔ انہوں نے نگران حکومت کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کوئی ایسے فیصلے نہیں کرسکتی جو لانگ ٹرم ہوں اور آنیوالی حکومت ان کی پابند ہو لیکن دوسری طرف قانون یہ بھی کہتا ہے کہ جو ضروری کام ہو جن کے نہ ہونے سے ملک و قوم کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو وہ کام نگران حکومت کرسکتی ہے‘ آئی ایم ایف سے معاہدے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نگران حکومت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جارہی اور نہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔

سید علی ظفر نے کہا کہ بعض چیزیںنہایت ضروری ہیں جن کے نہ کرنے سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس میں یہ بات شامل ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے فروری میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیااور 100 سے زائد نکات ایسے تھے جن پر کہا گیا کہ اگر پاکستان نے ان پر عمل نہیں کیا تواس کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائیگاتاہم جون میں گنتی کی چیزیں رہ گئیں جن پر کہا گیا کہ سیاسی کمٹمنٹ دی جائے پھر پاکستانی حکومت نے یہ دیکھا کہ ٹیرر فنانسنگ روکنے کیلئے قانون سازی‘ منی لانڈرنگ‘ کرپشن کوروکنا سمیت ایسے نکات تھے جو ہمارے قومی مفاد میں تھے جس پر کمٹمنٹ دینے کا فیصلہ درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹاکے خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کے حوالے سے یہ پلان تھا کہ اس کام میں پانچ سال لگیں گے کیونکہ اس سے پہلے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے تاہم 31 مئی 2018ء کو آئینی ترمیم آئی اور فاٹا کو کے پی کے میں ضم کر دیا گیا جس کے بعد کوئی ایسی جادو کی چھڑی نہیں تھی کہ وہاں انفراسٹرکچر فوری آجائے ایسی صورتحال میں عوام سے ٹیکس بھی نہیں لیا جاسکتا توہم نے فوری طور پر ان کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا۔

ایک سوال پر نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک میں ابھی تک ریگولیٹری ڈیوٹی نہیں لگائی گئی لیکن کرنسی ایکسچینج ریٹ ڈی ویلیو ہوا چونکہ ڈالر ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ ڈیمانڈ اور سپلائی مارکیٹ فورسز پر انحصار کرتا ہے جس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ریزرو سے پیسے نکال کر مارکیٹ میں اور اس پر جو پچھلے سالوں میں ہوتا رہا جس سے ملک میں ریزرو 40 سے 50 فیصد کم ہوگئے لیکن ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ دو مہینے کیلئے مزید ریزروکم نہیں کرسکتے اس کیلئے ہمیںکڑوا فیصلہ کرنا پڑیگا لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب ریزرو کوہاتھ نہیں لگایا جائیگا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 25 جولائی کوعام انتخابات کے موقع پر پولیس کے ساڑھے چار لاکھ اہلکار اپنے فرائض سرانجام دینگے جبکہ تین لاکھ آرمی کے جوان بھی تعینات ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کا ایشو ہمارا قومی ایشو ہے جس پر ہمیں بلیم گیم میں نہیں پڑنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت پولنگ ڈے پر سکیورٹی سمیت تمام انتظامات قابل اطمینان ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کے حوالے سے تحقیقات کا کام عدلیہ کا ہے ،اس سے قبل کسی کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ایک سوال پر نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے لئے ایک اہم مسئلہ پانی کا مسئلہ ہے جس پر اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے‘ ملک کو اس وقت 13 ڈیموں اور اس کے علاوہ ریزروائرز کی بھی ضرورت ہے‘ انہوں نے کہا کہ ہمارا 90 فیصد سے زیادہ پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے جس میں سے زیادہ تر پانی ضائع ہوجاتا ہے اگر ہم ’’ڈراپ فار کراپ ‘‘ کی فلاسفی اپنا لیں تو ہم ہر سال ایک ڈیم کے برابر پانی بچا سکتے ہیں، علاوہ ازیں ہمیں دیگر استعمال کیلئے سیوریج ٹریٹڈ واٹر استعمال کرنا چاہیے۔

بجلی کے بحران کے حل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ٹرانسمیشن سسٹم کی درستگی اور ڈسکوز میں بجلی چوری کی روک تھام ضروری ہے۔ نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ سی پیک ہمارے لئے ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے جو وسطیٰ ایشیاء اور چائنہ سے جوڑتا ہے لیکن ابھی تک ہم پوری طرح سے اس کیلئے ویژن لیکر نہیں آئے اس عظیم منصوبہ سے پاکستان کو استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں چاہئے کہ سیاسی ایشوز کو چھوڑ کر آنیوالی حکومت کو مضبوط کریں تاکہ وہ ملک کو آگے لیکر جائے‘ عام انتخابات کے موقع پر میڈیا کی پولنگ سٹیشنز تک رسائی اور نتائج کی شفاف طریقے سے ترسیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس بار الیکشن کمیشن جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہے اور ایک سافٹ ویئر کے تحت فوری طور پرنتائج پی ٹی وی کو ٹرانسفر کئے جائیں گے جس کی ثبوت کے طور ہارڈ کاپی بھی تصدیق کیلئے موجود ہوگی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جیل میں سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے سوال پر سید علی ظفر نے کہا کہ جیل مینوئل کے مطابق سابق وزیراعظم کوتمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیںاگر کسی کو اس حوالے سے شکایت ہے تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ ایک سوال پر نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ نگران وزیراعظم‘ وفاقی کابینہ اور ان کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ۔