سپریم کورٹ نے اسلام آباد سے اسکردو کے پی آئی اے کے مہنگے کرایوں پر پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور دیگر کو نوٹس جاری کردیئے

چیف جسٹس نے پی آئی اے ائیر سفاری بد انتظامی اور مارخور کے نشان سے متعلق سی ای او پی آئی اے کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تقرری، تنخواہ اور مراعات لینے سے متعلق معاملہ نیب کو بھیج دیا

اتوار 22 جولائی 2018 16:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 جولائی2018ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد سے اسکردو کے پی آئی اے کے مہنگے کرایوں پر پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور دیگر کو نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پی آئی اے ائیر سفاری بد انتظامی اور مارخور کے نشان سے متعلق سی ای او پی آئی اے مشرف رسول کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تقرری، تنخواہ اور مراعات لینے سے متعلق معاملہ نیب کو بھیج دیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اتوارکو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو اسلام آباد سے اسکردو کے پی آئی اے کے مہنگے کرایوں،پی آئی اے ایئر سفاری میں بد انتظامی اور مارخور کے نشان چھاپنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

(جاری ہے)

اسلام آباد سے اسکردو کے پی آئی اے کے مہنگے کرایوں پر عدالت برہم ہوگئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نجی ایئر لائنز کو بھی شمالی علاقہ جات میں آپریٹ کرنے کی اجازت دیں۔ سپریم کورٹ نے پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور دیگر کو نوٹس جاری کردیئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ شمالی علاقہ جات کے لوگ ملک سے محبت کرتے ہیں۔ مہنگے کرایوں سے شمالی علاقہ جات کی سیاحت بھی متاثر ہوتی ہے لوگوں نے جانا چھوڑ دیا ہے۔ صرف یکطرفہ کرایہ 12 ہزار 3 و روپے مسافروں کے ساتھ ذیادتی ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام رو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اتنے مہنگے کرایوں پر سیاحت متاثر ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اس کرائے پر نظر ثانی کریں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں ائیر سفاری پر کون کون گیا، اجازت کس نے دی۔ سی ای او پی آئی اے مشرف رسول نے بتایا کہ کل 112 مسافر تھے جن میں 42 مہمان مسافر تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا ان 42 مہمان مسافروں سے کرایہ لیا گیا۔

سی ای او پی آئی اے نے بتایا کہ ان 42 مہمان مسافروں سے کرایہ نہیں لیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 42 مہمان مسافروں کو کس نے منتخب کیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ آپ کتنی تنخواہ لیتے ہیں۔ مشرف رسول نے بتایا میری 14 لاکھ تنخواہ ہے۔ عدالت نے سی ای او کو 42 مہمان مسافروں کے اخراجات ذاتی تنخواہ سے ادا کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ان کی تقریری کے لیے کابینہ کے اجلاس کا کیا ہوا۔

کیوں نہ ایسے افسر کو معطل کر کے دوسرے کو تعینات کردیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے منع کیا تھا کہ مارخور کا نشان نہ لگائیں اور لگائے گئے نشان ہٹائیں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کل اسلام آباد سے کراچی آتے ہوئے بھی مارخور کا نشان دیکھا۔ سی ای او نے کہا کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہماری وجہ سے کون سا کام روکا ہوا ہے۔

سی ای او نے کہا کہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، ہم کوئی غلط کام نہیں کر رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سفارش پر بھرتی ہو کر ایسے کام کرتے ہیں۔ عدالت نے مارخور کی تصویر پر سی ای او مشرف رسول کو توہین عدالت کے بھی نوٹس جاری کر دیئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نیب کو سی ای او پی آئی اے کی تقرری، تنخواہ اور مراعات لینے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔