الیکشن مہم ختم ،ْ13 پرتشدد واقعات میں 3 امیدواروں سمیت 185 افراد جاں بحق ہوئے

اسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت پنجاب اور سندھ محفوظ رہے ،ْ رپورٹ

منگل 24 جولائی 2018 16:12

الیکشن مہم ختم ،ْ13 پرتشدد واقعات میں 3 امیدواروں سمیت 185 افراد جاں بحق ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جولائی2018ء) پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف تابڑ توڑ آپریشنز اور کارروائیوں سے امن و امان کی مجموعی صورتحال بہت بہتر ہوئی تاہم رواں سال کی انتخابی مہم کے ایک ماہ کے دوران دو صوبوں میں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور فائرنگ سمیت 13 پرتشدد کارروائیوں میں 3 امیدواروں سمیت لگ بھگ 185 افراد جاں بحق اور 350 زخمی ہوئے ،ْاسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت پنجاب اور سندھ محفوظ رہے۔

واضح رہے کہ سال 2013 کی انتخابی مہم کے ایک ماہ کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دہشت گردی کے 100 سے زائد بڑے واقعات میں 300 سے زائد شہری جاں بحق ،ْ 600 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ رواں سال کی انتخابی مہم کا سب سے دلخراش واقعہ 14 جولائی کو پیش آیا، جب بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی بی 35 میں مستونگ کے نواحی علاقے درین گڑھ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی کے انتخابی جلسے میں ہونے والے خودکش حملے میں اب تک 154 افراد جاں بحق جبکہ 200 زخمیوں میں سے بیشتر ابھی بھی اسپتالوں میں داخل ہیں۔

(جاری ہے)

10 سال کے دوران کسی انتخابی جلسے میں اپنی نوعیت کا یہ بڑا خودکش بم دھماکا تھا۔10 جولائی کو پشاور کے علاقے یکہ توت میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقے پی کے 78 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ہارون بشیر بلور کے انتخابی جلسے میں خودکش بم دھماکے میں ہارون بلور سمیت مجموعی طور پر 22 افراد جاں بحق جبکہ 65 زخمی ہوئے ،ْ22 جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے نوری دربار کے قریب انتخابی مہم کے دوران کلاچی سے پی کے 99 سے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار اور سابق صوبائی وزیر زراعت سردار اکرام اللہ خان گنڈا پور کو خودکش حملے میں دو ساتھیوں سمیت شہید کردیا گیا جبکہ 5 افراد زخمی ہوئے۔

اسی روز بنوں میں این اے 35 اور پی کے 90 سے متحدہ مجلس عمل کے اٴْمیدوار اکرم خان درانی پر بسیہ خیل میں قاتلانہ حملہ کیا گیا، تاہم گاڑی بلٹ پروف ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ ماضی قریب میں ان پر یہ چھٹا حملہ تھا جس میں وہ محفوظ رہے۔واضح رہے کہ 16 جولائی کو بھی اکرم خان درانی کی انتخابی مہم کے دوران موٹرسائیکل میں نصب بم کا دھماکا کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 2 بچوں سمیت 5 افراد جاں بحق جبکہ 4 پولیس اہلکاروں اور دو خواتین سمیت 35 افراد زخمی ہوئے تھے ،ْان کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی، واقعے کی ذمہ داری اتحاد المجاہدین نے قبول کی تھی۔

اتحاد کے مبینہ ترجمان عبداللہ خراسانی نے دیگر پاکستانی شخصیات کو بھی نشانے پر رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ 22 جولائی کو ہی دالبندین میں بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملے میں 20 افراد زخمی ہوئے۔ اسی روز چمن میں ریموٹ بم دھماکے کے نتیجے میں 6 افراد زخمی ہوئے۔16 جولائی کو پاک افغان بارڈر کے قریب چمن میں قلعہ عبداللہ کے ایک مہمان خانے پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اے این پی کے رہنما اور سابق سینیٹر داؤد خان اچکزئی زخمی ہوئے۔

16 جولائی کو ہی اٹک میں سابق وفاقی وزیر اور سینئر ن لیگی رہنما شیخ آفتاب پر قاتلانہ حملہ کیا گیاتاہم وہ محفوظ رہے ،ْمسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیخ آفتاب حلقے میں انتخابی مہم سے واپس آرہے تھے کہ تھانہ سٹی کی حدود میں نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی۔7 جولائی کو بنوں کے علاقے تختی خیل میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے 89 سے ایم ایم اے کے امیدوار ملک شیریں کے قافلے کے قریب بارودی مواد نصب کرکے موٹرسائیکل میں دھماکا کیا گیا تھاجس کے نتیجے میں ملک شیرین سمیت 8 افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کا مقدمہ ملک شیریں نے اپنے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار ملک شاہ محمد اور ان کے بھائی کے خلاف درج کرایا۔7 جولائی کو ہی بلوچستان کے علاقے تربت کے نواح میں نامعلوم افراد نے بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی رہنما سید احسان شاہ اور میر اصغر رند کی گاڑی پر فائرنگ کی۔ حملے کے وقت وہ انتخابی مہم پر تھے جو فائرنگ سے محفوظ رہے۔

7 جولائی کو قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی پہلی تحصیل زرمق میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ملک اورنگزیب خان کے الیکشن آفس میں دھماکے کے نتیجے میں 10 افراد زخمی ہوئے۔ 30 جون کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن مدینہ کالونی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مسلم لیگ (ن) کا کارکن عابد خان تنولی ہلاک ہوا۔ یہ واردات سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بلدیہ ٹاؤن کے دورے اور جلسے کے دو روز بعد ہوئی۔