پاکستان کے ہرشہری کی ہیپاٹائٹس بی اور سی کی اسکریننگ کروائی جائے ، پاکستان گیسٹروانٹرالوجی اینڈ لیور ڈیزیزز سوسائٹی کا مطالبہ

پاکستان میں وائرل ہیپاٹائٹس وبائی صورت اختیار کر چکا ہے ، پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کروڑ 80لاکھ سے 2کروڑ کے درمیان ہے، ڈاکٹر سجاد جمیل ، ڈاکٹر شاہد احمد ، ڈاکٹر لبنی کمانی ، ڈاکٹر نازش بٹ اور ڈاکٹر عارف احمدکی پریس کلب میں پریس کانفرنس

ہفتہ 28 جولائی 2018 19:57

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جولائی2018ء) ملک کے معروف ماہرین امراض پیٹ و جگر نے آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے ہرشہری کی ہیپاٹائٹس بی اور سی کی اسکریننگ کروائی جائے ، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں وائرل ہیپاٹائٹس وبائی صورت اختیار کر چکا ہے ، پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کروڑ 80لاکھ سے 2کروڑ کے درمیان ہے ۔

پاکستان میں روزانہ ایک سو بیس سے ایک سو پچاس افراد اس خطرناک وائرس کے ہاتھوں سسک سسک کر اپنی زندگی ختم کر رہے ہیں، جلد تشخیص کے ذریعے اس مہلک مرض کا علاج اور خاتمہ ممکن ہے لیکن اگر اانے والی حکومتوں نے بے توجہی برتی تو ہیپاٹائٹس پاکستان کے لیے دوسرا پولیو بن سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے کے موقع پر پاکستان گیسٹروانٹرالوجی اینڈ لیور ڈیزیزز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر سجاد جمیل ، سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد ، ڈاکٹر لبنی کمانی ، ڈاکٹر نازش بٹ اور ڈاکٹر عارف احمد نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

پریس کانفرنس سے قبل کراچی پریس کلب میں صحافیوں کے لیے مفت اسکریننگ کیمپ کا انعقاد کیا گیا جبکہ پریس کانفرنس کے اختتام پر کراچی پریس کلب کے سامنے آگہی واک کا انعقاد بھی کیا گیا۔ ڈاکٹر سجاد جمیل کا کہنا تھا کہ دنیا میں 72 ملین لوگ ہیپاٹائٹس سی اور 400 ملین لوگ ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں، بدقسمتی سے ان میں سے صرف بیس فیصد افراد اپنی بیماری سے آگاہ ہیں ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف دس سے بیس فیصد لوگ اپنی بیماری سے آگاہ ہیں، 80فیصد افراد اس خاموش قاتل سے لا علم ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سیکی شرح سات فیصد ہے، پاکستان ہیپاٹائٹس سی میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہیپاٹائٹس سی تیزی سے پھیل رہا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر پاکستانی کی ہیپاٹائٹس کی اسکریننگ ہونی چاہیے، ڈاکٹر شاہد احمد نے کہا کہ نزلہ زکام اور دل کی بیماریاں انسان کو متاثر کرتی ہیں لیکن ان بیماریوں سے متاثرہ انسانجلد صحت یاب ہوکر دوبارہ صحت مند زندگی بسر کرتا ہے لیکن ہیپاٹائٹس بی اور سی کی پیچیدگی کے نتیجے میں ہزاروں انسان موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور اگر کسی شخص کا جگر خراب ہوجائے تو وہ سسک سسک کر جان دے دیتا ہے ، انہوں نے دعوی کیا کہ پاکستان میں روزانہ ایک سو بیس سے ایک سو پچاس افراد ہیپاٹائٹس کے نتیجے میں انتقال کر جاتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر اسمرض کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ پاکستان کے لیے دوسرا پولیو ثابت ہوسکتا ہے اور ایسی تباہی پھیلا سکتا ہے جس کے بعد پاکستان میں آنا اور یہاں سے باہر جانا ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے ، خوش قسمتی سے اب پاکستان میں اس مرض کی تشخیص اور علاج نہایت آسان اور سستا ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہر اکستانی اپنے آپ کو اسکرین کروالے ۔

ڈاکٹرلبنی کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چالیس فیصد انتقال خون ہیپاٹائٹس بی اور سی کا باعث بن رہا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں خصوصا سندھ میں پچاس فیصد بلڈ بینک غیر قانونی ہیں جو ہیپاٹائٹس کے پھیلا کا سبب ہیں ، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قومی شناختی کارڈ بنواتے وقت ہیپاٹائٹس بی اور سی کی اسکریننگ کا سرٹفیکیٹ طلب کیا جائے تاکہ لوگوں کو اپنی بیماری کے متعلق آگہی ہواور ان کا علاج کیا جا سکے ۔ ڈاکٹر نازش بٹ کاکہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کھانے سے نہیں بلکہ آلودہ آلات، متاثرہ خون سے پھیلتا ہے اور اس سلسلے میں اطائیوں اور غیر مستیند حکیموں کے پاس جانے سے صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے ۔