سپریم کورٹ ، دوہری شہریت کے معاملے پر سیکرٹری دفاع سے جواب طلب

نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت پیش ہونے کا حکم

منگل 31 جولائی 2018 21:00

سپریم کورٹ ، دوہری شہریت کے معاملے پر سیکرٹری دفاع سے جواب طلب
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 31 جولائی2018ء) سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے معاملے پر سیکرٹری دفاع سے جواب طلب کر لیا، عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت پیش ہونے کا حکم بھی دیدیا ہے ، عدالت کا کہنا تھاکہ سیکرٹری دفاع دہری شہریت کے معاملے پر جواب میں بتائیں کیا فوج میں دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی ہی اگر دہری شہریت کی پابندی ہے تو صرف جوانوں کی حد تک یا افسروں پر بھی عائد ہوتی منگل کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ججز اور سرکاری افسروں کی دوہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کئی افسروں نے تاحال دوہری شہریت چھپائی ہوئی ہے، شہریت چھپانے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی، چیئرمین نادرا عثمان مبین نے کہاکہ 1116افسر غیر ملکی یا دوہری شہریت رکھتے ہیں، 1249افسروں کی بیگمات غیر ملکی یا دوہری شہریت کی حامل ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت رکھنا قانونی طور پر کوئی جرم نہیں لیکن دوہری شہریت والے ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتے، سرکاری افسروں کے حوالے سے دوہری شہریت کا قانون خاموش ہے، کیا قانون میں ارکان اسمبلی سے تعصب تو نہیں برتا جا رہا، کئی حساس دفاتر میں بھی دوہری شہریت کے حامل افسر موجود ہیں، کئی ججز بھی دوہری شہریت کے حامل ہیں، اگلے مرحلے میں پاک فوج کے حوالے سے بھی تفصیلات لیں گے،تفصیلات لے کر معاملہ حکومت کو بھجوایا جائے گا،چیف جسٹس نے کہاکہ کئی سرکاری افسر تو پاکستان کے شہری ہی نہیں،دوہری شہریت کا معاملہ عدالت نے دیکھنا ہے یا حکومت نی عدالتی معاون بتائیں خود فیصلہ کریں یا معاملہ کابینہ کو بھجوائیں عدالتی وقفے کے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالتی معاون شہزادالہی ایڈووکیٹ نیموقف اپنایاکہ19 ممالک کی دوہری شہریت بطور پاکستانی رکھنے کی اجازت ہے، چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا دوہری شہریت والوں کو بیرون ملک وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو بطور پاکستانی حاصل ہوتے ہیں عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت والوں کے بیرون ملک حقوق کاانہیں علم نہیں،پاکستان میں دوہری شہریت رکھنے والے ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا دوہری شہریت والا غیر ملکی ہو گا، عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت رکھنے والا پاکستانی شہری ہی تصور ہو گا، قانون دوہری شہریت رکھنے کی اجازت دیتا ہے، سیٹیزن شپ ایکٹ کے تحت غیر ملکی پیٹرولیم، توانائی میں ملازمت نہیں کر سکتا، سیٹیزن شپ ایکٹ میں نیوکلیر پروگرام کا ذکر نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ جب یہ قانون بنا تو پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھاایٹمی طاقت ہوتے تو شاید قانون ساز غیر ملکی شہریت پر ایٹمی پروگرام میں ملازمت کی قد غن لگاتے، ماشاء اللہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد کسی قانون میں ترمیم کی توفیق نہیں ہوئی،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اسپیس ٹیکنالوجی میں بھی کسی غیر ملکی کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

عدالتی معاون کا کہنا تھاکہ اہم اداروں میں غیر ملکی اور دوہری شہریت کے حامل افراد کے کام پر پابندی نہیں ہونی چاہیے، عدالت عظمیٰ کا جج بننے کے لیے دوہری شہریت نہ ہونے کی پابندی نہیں، مواصلات، اٹامک انرجی کمیشن میں غیر ملکی کی ملازمت پر پابندی ہونی چاہیے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ کیا دوہری شہریت والوں کو حساس عہدوں پر کام کی اجازت ہونی چاہیی عدالتی معاون نے کہاکہ حساس عہدوں پر تقرری کابینہ کی منظوری سے ہونی چاہیے۔

عدالت نے دوہری شہریت کیس کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت طلب کرلیا ، عدالت کا کہنا تھاکہ سیکرٹری دفاع دہری شہریت کے معاملے پر جواب میں بتائیں کیا فوج میں دوہری شہریت کے حامل افراد پر پابندی ہی اگر دہری شہریت کی پابندی ہے تو صرف جوانوں کی حد تک یا افسروں پر بھی عائد ہوتی، ۔اس دوران عدالتی معاون نے کہاکہ حساس عہدوں پر تعیناتیوں کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے کہاکہ قانون میں فی الحال رکن قومی اسمبلی کے لیے دوہری شہریت کی پابندی ہے، اہم معاملہ اٹھا کر شاید غلطی کر رہے ہیں، ہم شاید ملک کے بڑے لوگ ہیں، پارلیمنٹ کو یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھاپارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے، پاکستان کے ایک سفیر غیر ملکی بھی رہے ہیں، کیا غیر ملکی پاکستان کی سفارت کاری کر سکتا ہے عدالتی معاون نے کہاکہ اعلی عہدوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک میں اعلی ملازمت کر لیتے ہیں چیف جسٹس نے کہاکہ ایسے اعلی عہدے پر کام کرنے والے کے بارے میں علم ہے، کیا آرمی کا سربراہ دوہری شہریت رکھ سکتا ہی اعلی عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک شخصیت نے متحدہ عرب امارات میں ملازمت اختیار کر لی، عدالتی معاون نے کہاکہ حسین حقانی نے بھی عہدہ چھوڑنے کے بعد بیرون ملک ملازمت کی، دوہری شہریت پر پابندی فوج میں نے نہیں ہے، پاک فوج میں غیر ملکی کی ملازمت پر پابندی ہونی چاہیے، پاک فوج اہم ادارہ ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر چلنا ہو گا، قانون سازی اور قانون میں بہتری پارلیمنٹ کا کام ہے، قانون اپ ڈیٹ کرنا عدلیہ کا کام نہیں، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ خود قانون اپ ڈیٹ کریں،ملک کے لیے لوگوں نے جان دی ہے، کارگل معرکہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ پیدائشی طور پر دوہری شہریت کے حامل افراد شہریت حاصل کرنے والوں سے مختلف ہے نااہلی ان افراد کے لیے ہونی چاہیے جو دوسرے ملک کا حلف اٹھائیں۔

عدالتی معاونین کے دلائل مکمل ہوئے تو کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔