نیویارک ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 اگست2018ء)
عمران خان گھٹن زدہ موروثی سیاست میں پاکستانی عوام کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ یہ بات معروف امریکی تھنک ٹینک وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مان نے معروف امریکی جریدے فارن پالیسی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ
پاکستان کے عوام ملک میں طویل عرصہ سے جاری کچھ خاندانوں کی موروثی سیاست سے اکتا چکے تھے ۔انہوں نے
عمران خان کے
کرکٹ سٹار سے ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک کے سفر کا جائزہ لیتے ہوئے اسے ایک شاندار اور روشن سفر قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اپنے سے پہلے آنے والے کسی بھی پاکستانی رہنما جیسے نہیں، وہ کرشماتی شخصیت کے مالک، مقابلتاً شفاف اور موروثی سیاست کرنے والے خاندانوں کے رہنمائوں کے جیسے بوجھ اور مشکلات سے آزاد ہیں۔
(جاری ہے)
مائیکل کوگل مان نے
عمران خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم کی طرف سے 25 مارچ 1992ء کو آسٹریلیا میں برطانوی ٹیم کو شکست دے کر
کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کو پاکستانی تاریخ کے سنہری لمحات قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فتح نے
پاکستان کو 45 سال میں پہلی بار ورلڈ چیمپیئن بنایا۔ اس تاریخی کامیابی کا جشن
پاکستان بھر کے شہریوں نے پہلی بار گھروں سے باہر نکل کر منایا۔
یہ عالمی
کرکٹ میں
عمران خان کا عروج تھا۔اب سیاست میں
عمران خان اپنے کیریئر کے عروج پر پہنچ کر
پاکستان کے
وزیراعظم بننے والے ہیں۔یہ ایک اور بڑی کامیابی ہے۔
عمران خان نے
کھیل اور سیاست دونوں میدانوں میں اعلیٰ ترین مقام اور کامیابیاں حاصل کیں۔کھیلوں کی
دنیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں نے سیاست کے میدان میں قسمت آزمائی کی لیکن شاذ و نادر ہیں حکومت کی قیادت کے مرحلے تک پہنچ سکے۔
اس حوالے سے ایک مثال لائبیریا کے فٹ بال سٹار جارج ویہہ کی ہے جو 2017 ء میں ملک کے صدر منتخب ہوئے۔1970ء میں
برطانیہ کے
وزیراعظم بننے والے ٹیڈ ہیتھ اس حوالہ سے ایک اور مثال ہیں جنہوں نے
وزیراعظم بننے سے صرف ایک سال قبل مشکل ترین سڈنی ہوبارٹ یاٹ ریس جیتی تھی
۔عمران خان نے اپنا سیاسی کیریئر شروع کرنے کے لئے کھیلوں کی
دنیا کو خیرباد کہہ کر اپنی پوری توجہ اپنے سیاسی اہداف کے حصول پر مرکوز کردی لیکن
کھیل کی
دنیا میں ان کی شاندار کامیابیوں نے ان کے سیاسی کیریئر کی ابتدا میں ان کی مدد ضرور کی جس میں ہر قیمت پر جیتنے کی
عمران خان کی دھن بھی شامل ہے جو انہوں نے
کھیل کے میدان میں سیکھی۔
مائیکل کوگل مان نے
عمران خان کو غیر معمولی لگن اور عزم رکھنے والا انسان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے
کرپشن پر قابو پانے سے لے کر امریکی
ڈرون حملوںکی مخالفت جیسے معاملات پر دو ٹوک مؤقف اختیار کیا اور اس پر ڈٹے رہے۔انہوں نے اپنا امیج بدعنوانی سے پاک ایسے اصلاح پسند رہنما کا بنا لیا ہے جس نے
پاکستان سے شریف اور بھٹو فیملیز سمیت موروثی سیاستدانوں کے تسلط میں پنپنے والے بدعنوان نظام کے تمام تر گند کو صاف کرنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے اگرچہ اس وقت
تحریک انصاف میں ایسے کئی رہنما شامل ہیں جو ماضی میں انہی دو خاندانوں کی پارٹیوں میں شامل رہ چکے ہیں۔
مائیکل کوگل مان نے کہا کہ
پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے
پنجاب کے نوجوان، قدامت پسند اور متوسط غرض ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ووٹرز نے
کرپشن کے خلاف
عمران خان کے پیغام پر لبیک کہا۔1992ء میں
کرکٹ کے میدان میں
عمران خان کی شاندار کامیابی کے عینی شاہد ووٹرز نے
سوشل میڈیا پر
عمران خان کا بھرپور اور بعض اوقات جارحانہ انداز میں دفاع کیا۔
پاکستان میں ان کے ناقدین بھی موجود ہیں جن میں سرفہرست
مسلم لیگ (ن) ہے جس کی اب تک
پاکستان میں حکومت تھی۔مائیکل کوگل مان نے کہا کہ
عمران خان کو اس وقت دگرگوں معیشت کی بحالی، شاکی اپوزیشن، انتہاپسندوں سے خطرات، بڑھتے چینی قرضوں جیسے چیلنجز سے نمٹنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مخاصمانہ رویہ رکھنے والا پڑوسی ملک
بھارت ہے جو
عمران خان کی قوم پرستانہ سوچ سے پہلے ہی پریشان ہے۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے اس سے پہلے وفاقی حکومت کی قیادت نہیں کی اور انہیں یہ کام
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ مخالفانہ سیاسی ماحول میں کرنا پڑے گا لیکن
عمران خان اپنی راہ میں حائل مشکلات سے نمٹنے کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں۔26 سال پہلے انہوں نے انجریز اور خراب کارکردگی کا شکار ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے
کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت لیا تھا۔ اس میچ سے قبل انہوں نے اپنی ٹیم کے ارکان کے سامنے ایک جذباتی تقریر میں انہیں کہا تھا کہ وہ میدان میں
زخمی شیروں کی طرح مقابلہ کریں۔یقیناً
عمران خان کو اس وقت اس سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔