مقبوضہ کشمیر، آئینی اختیار ختم کرا نے کی درخواست پر سماعت ملتوی

درخواستوں پر سماعت کی اگلی تاریخ کا تعین اب 27 اگست سے شروع ہونے والے ہفتے کے دوران کیا جائے گا،بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا وادی کشمیر اور جموں خطے میں دوسر ے روز بھی عام ہڑتال کی وجہ سے کاروبارِ زندگی مفلوج رہا

پیر 6 اگست 2018 21:44

سرینگر،نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 اگست2018ء) بھارت کی سپریم کورٹ نے آئینِ ھند کی دفعہ 35 اے کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت ملتوی کردی ہے۔درخواستوں میں اس دفعہ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے منسوخ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ان میں سے ایک درخواست ایک غیر سرکاری تنظیم ط 'وی ،دی سٹیزنز' ط نے 2014ئ میں دائر کی تھی۔

اس تنظیم کو مبینہ طور پر قدامت پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی پشت پناہی حاصل ہے۔پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ درخواستوں پر سماعت کی اگلی تاریخ کا تعین اب 27 اگست سے شروع ہونے والے ہفتے کے دوران کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کو ہونے والی سماعت اس لیے ملتوی کرنا پڑ رہی ہے کیوں کہ کیس کی شنوائی کرنے والے سہ رکنی بینچ میں شامل جسٹس ڈی وائی چندرچود چھٹی پر ہیں۔

(جاری ہے)

دفعہ 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو ریاست کے "مستقل رہائشیوں" (دیرینہ باسیوں) کا تعین کرنے اور انہیں خصوصی حقوق اور مراعات دینے کا حق حاصل ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں 1927ئ سے نافذ وہ قانون متاثر ہوگا جس کے تحت کئی پشتوں سے کشمیر میں آباد افراد ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں اور سرکاری ملازمتیں اور تعلیمی وظائف حاصل کرسکتے ہیں اور ریاستی اسمبلی کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کے مجاز ہیں۔

دفعہ 35 اے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی ایک ذیلی شق ہے جسے 1954ئ میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان کے وفاق میں خصوصی آئینی حیثیت حاصل ہے۔ سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کے خلاف بھی ایک درخواست زیرِ سماعت ہے۔ سپریم کورٹ نے کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق ان تمام عرضیوں کو یکجا کرکے ان کی سماعت ایک سہ رکنی بینچ کو تفویض کی ہے۔

ریاست کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے اور دفعہ 35 اے کے تحت اس کے باشندوں کو حاصل استحقاق کو ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ کئی روز سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ادھر پیر کو مسلسل دوسرے روز بھی وادی کشمیر اور جموں خطے کی چناب وادی اور بعض دوسرے مسلم اکثریتی علاقوں میں عام ہڑتال کی وجہ سے کاروبارِ زندگی مفلوج رہا ۔

ہڑتال کی اپیل حریت پسند قائدین کے اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس نے کی تھی جس کی توثیق مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں، تاجر انجمنوں اور سول سوسائٹی گروپس نے بھی کی ہے۔کشمیری جماعتوں کا استدلال ہے کہ دفعہ 35 اے کو منسوخ کرانے کے مطالبے کے پیچھے مسلم اکثریتی ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سوچ کار فرما ہے۔ان کا الزام ہے کہ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس آئینی شق کے خلاف مہم چلانے والوں کی پشت پناہی اور اعانت کر رہی ہے۔

ریاست کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے اور دفعہ 35 اے کے تحت اس کے باشندوں کو حاصل استحقاق کو ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف تحریک میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سمیت کئی بھارت نواز سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوگئی ہیں جن کا استدلال ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو بھارت کے ساتھ ریاست کا الحاق کمزور پڑ جائے گا۔

پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مشرا نے کہا کہ دفعہ 35 اے گزشتہ 60 برس سے آئین کا حصہ ہے اور عدالتِ عظمیٰ کو یہ دیکھنا ہے کہ آیا دفعہ 35 اے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف جاتی ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ چونکہ دفعہ 35 اے کی آئینی حیثیت کو چیلینج کیا گیا ہے اس لیے اس کیس کو آئینی بینچ کے پاس منتقل کرنا ہوگا۔ تاہم اس کا فیصلہ وہ سہ رکنی بینچ کرے گا جو اس درخواست کی شنوائی کر رہا ہے۔

ریاست میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر جموں و کشمیر کے گورنر نے بھی گزشتہ ہفتے بھارتی سپریم کورٹ سے ایک درخواست کے ذریعے دفعہ 35 اے پر سماعت ملتوی کرنے کی گزارش کی تھی۔ تاہم پیر کو عدالتِ عظمیٰ میں درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے ریاستی حکومت کی اس دلیل پر اعتراضات کرتے ہوئے کہا کہ کیس کی سماعت کو بار بار ملتوی کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔

کیس کے سلسلے میں عدالتِ عظمیٰ میں کئی انفرادی اور اجتماعی ضمنی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں جن میں دفعہ 35 اے کے ساتھ ساتھ دفعہ 370 کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔اتوار کو جموں کے وکلا کی انجمن نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ بھی عدالت میں ایک درخواست دائر کر رہی ہے جس میں دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی جائے گی۔