ہارنے والوں نے الیکشن کمیشن کی ہر اینٹ ہاتھوں سے لگائی،اب گلہ کیوں ‘ڈاکٹر طاہرالقادری

3 ء میںقابل اعتبار الیکشن کمیشن اور جامع انتخابی اصلاحات کیلئے لانگ مارچ کیا تھا‘سربراہ عوامی تحریک لانگ مارچ کے دوران دھاندلی سے پاک الیکشن کیلئے ڈاکومنٹ دیا تھا جس کی تائید کی گئی مگر عمل نہ ہوا‘گفتگو

بدھ 8 اگست 2018 20:52

ہارنے والوں نے الیکشن کمیشن کی ہر اینٹ ہاتھوں سے لگائی،اب گلہ کیوں ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اگست2018ء) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ دھاندلی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند اورقابل اعتبار الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے جنوری 2013 ء میں لاکھوں عوام کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا، لانگ مارچ کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود اس آئینی، عوامی ایشو کو نظر انداز کیا گیا، 2018 ء کے انتخابات اسی الیکشن کمیشن نے کروائے جس کی عمارت کی ہر اینٹ ہارنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی، اب گلہ شکوہ کس بات کا ۔

وہ گزشتہ روز سویڈن (مالمو) پہنچنے پر ایئرپورٹ پر پارٹی رہنمائوں، عہدیداروں کے ہمراہ گفتگو کررہے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ 2002 ء سے پہلے اور بعد میں ہونے والے ہر الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا گیا اور ہارنے والوں نے الیکشن کمیشن کے نقائص بیان کیے مگر اعتراض کرنے والوں کو جب حکومت ملی تو انہوں نے اسی الیکشن کمیشن کو پاک صاف قرار دے کر نقائص دور کرنے کی بجائے سرپرستی کی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کیلئے تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی انتخابی اصلاحات کیلئے دو سال سر جوڑکر بیٹھی رہی اور اس پارلیمانی کمیٹی میں اکثریت ان جماعتوں کے نمائندوں کی تھی جو آج کل الیکشن کمیشن کے باہر سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی عقیدہ ختم نبوت کے خلاف کام کر سکتی تھی تو الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کیلئے ضروری قانون سازی اور اقدامات کیوں نہ کر سکی ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ الیکشن سے پہلے قومی خزانے کے اربوں روپے کے فنڈز ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے، مرضی کی حلقہ بندیاں کروائی گئیں، کاغذات نامزدگی سے ایمانداری کا تقاضا کرنے والی شقیں بھی نکلوائی گئیں، آئین کے آرٹیکل 63,62 کو ’’انتھیسزیا‘‘دے کر عضو معطل بنایا گیا، مطلوبہ نتائج کیلئے جملہ بندوبست کیے گئے پھر بھی نتیجہ مرضی نہیں آیا نہیں تو پھر آہ و بکاہ کیوں انہوںنے کہا کہ ہمارا الیکشن کی شفافیت اور عدم شفافیت سے کچھ لینا دینا نہیں، ہم تو اس پورے نظام کو باطل، کرپشن اور دھاندلی زدہ قرار دیتے ہیں جب تک آئین کی روح کے مطابق الیکشن کمیشن اور اس کے ضوابط نہیں بنالیے جاتے اور جامع اصلاحات کے ذریعے گند صاف نہیں کر دیا جاتا تب تک دھاندلی کی الزام تراشی ہوتی رہے گی، ہارنے والا جیتنے والے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہے گا، ماضی کے حکمران اور نہ سہی تو کم از کم الیکشن کمیشن کا ایک ادارہ ہی اس قابل بناجاتے کہ آج انہیں مینڈیٹ چرائے جانے کا گلا نہ ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2013 ء میں ہم نے انتخابی اصلاحات اور شفاف انتخابات کیلئے جو ڈاکومنٹ دیا تھا اور جس پر اس وقت کی تمام مقتدرپارلیمانی قوتوں کے سربراہوں نے دستخط کیے تھے آج بھی وہ ڈاکومنٹ انتخابی برائیوں کے سدباب کیلئے مفید اور معاون ہے۔