نئی حکومت تجارت پر انحصار اور تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے جامع منصوبہ تیار کرے، دستیاب ملکی وسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے معاشی استحکام کی منزل اور مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں

سارک چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر اور یونائٹڈ بزنس گروپ کے چیئرمین افتخار علی ملک کا بیان

جمعہ 10 اگست 2018 13:40

لاہور ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 اگست2018ء) سارک چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر اور یونائٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے چیئرمین افتخار علی ملک نے ملکی معاشی صورتحال کے تناظر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی آئندہ حکومت کے متوقع وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر پر زور دیا ہے کہ ایڈ کی بجائے ٹریڈ پر انحصار اور ملک میں تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے جامع منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ ملک معاشی و اقتصادی خود انحصاری کی منزل سے ہمکنار ہوسکے۔

جمعہ کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خوش آئند ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے متوقع وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اس ضمن میں ایف پی سی سی آئی اور یونائٹڈ بزنس گروپ سمیت ملک کے بڑے بزنس لیڈرز سے تجاویز طلب کی ہیں تاکہ ان کی روشنی میں مستقبل کی مالیاتی حکمت عملی تیار کی جاسکے۔

(جاری ہے)

اس سلسلہ میں انہوں نے یو بی جی کی کور کمیٹی کا اجلاس (کل) اتوار کو طلب کر لیا ہے تاکہ ملک کے موجودہ اقتصادی بحران پر غور کرتے ہوئے تجارت، صنعت اور کاروبار کے فروغ کیلئے قابل عمل تجاویز تیار کی جاسکیں۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کو درپیش شدید چیلنجز اورحکومت و نجی کاروباری شعبہ کے گھمبیر مسائل کا تقاضا ہے کہ مل بیٹھ کر پالیسی بنائی جائے کہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا دلایا جاسکے اور دستیاب ملکی وسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے معاشی استحکام کی منزل اور مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی آئندہ حکومت نے آئی ایم ایف کے اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا تو رہی سہی معیشت بھی تباہ ہوجائے گی کیونکہ اس میں گیس اور بجلی کے ٹیرف میں اضافہ، روپے کی قدر میں مزید کمی، زراعت پر ٹیکس اور سبسڈیوں کا خاتمہ شامل ہوگا جس کا منطقی نتیجہ صنعتوں کی بندش، بیروزگاری میں اضافہ اور مہنگائی کے طوفان کی صورت میں ظاہر ہوگا کیونکہ ملک بھر میں 200 ٹیکسٹائل ملز پہلے ہی بند پڑی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 25 سال میںآئی ایم ایف کے تجویز کردہ بہت سے اصلاحاتی اقدامات پر عملدرآمد کیا گیا مگر معاشی استحکام اور ترقی کی رفتار میں اٖضافے کی منزل حاصل نہیں ہوسکی بلکہ پاکستان کے مسائل اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں آئی ایم ایف کے مشورہ پر کیپیٹل اکاؤنٹ اوپن کرنے کی وجہ سے ہی پاکستان سے سرمایہ خلیجی ریاستوں اور دیگر ممالک جانا شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

افتخار علی ملک نے کہا کہ غیر ملکی امداد اور قرضوں سے بھی سماجی شعبہ میں کوئی بہتری نہیں آئی کیونکہ اس کا بڑا حصہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کی نظر ہو جاتا ہے اور اس کا بہت کم حصہ تعلیم، بنیادی ڈھانچے، صحت، بہبود آبادی اور دیگر سماجی شعبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی آئندہ حکومت پر زور دیا کہ دنیا، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے تباہ حال معیشت کی بحالی کیلئے امداد کی بجائے تجارت اور سرمایہ کاری پر انحصار کی پالیسی اپنائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا دوطرفہ تجارتی پارٹنر ہے اور تجارتی حجم میں اضافہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے جو گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 5 ارب ڈالر کی سطح پر ہے۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ خطے میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی زبردست قربانیوں کو تسلیم کرے کیونکہ اس جنگ میں سرگرم شرکت کی وجہ سے پاکستان ناقابل تلافی نقصان برداشت کرتا آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت کے درمیان تجارت 60 ارب ڈالر جبکہ انتہائی دوستانہ تعلقات کے باوجود چین اور پاکستان کے مابین تجارتی حجم صرف 6 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور تعلقات کے ضمن میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی خواب غفلت سے جاگ کر کمرشل زراعت کے میدان میں سنجیدگی سے کام شروع کریں تو ملک بہت زیادہ منافع کماسکتا ہے اور معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔