مالی سال 2018-19 کیلئے زرعی قرضے کے اجرا کا ہدف 1,250 ارب روپے مقرر

گورنراسٹیٹ بینک کا زرعی قرضے کی جدت پسند اسکیموں کے ذریعے چھوٹے کاشت کاروں اور محروم علاقوں کو سہولت دینے کا عزم

ہفتہ 11 اگست 2018 20:51

مالی سال 2018-19 کیلئے زرعی قرضے کے اجرا کا ہدف 1,250 ارب روپے مقرر
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اگست2018ء) گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ نے بینکوں پر زور دیا ہے کہ چھوٹے کاشت کاروں کو آسان اور تیزی سے قرضے فراہم کرنے کے لیے جدت پسند طریقے اپنائیں اور زرعی قرضوں کے اجرا میں انقلابی تبدیلی لائیں۔ زرعی قرضے کی مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی)کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زرعی قرضہ حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔

کمیٹی کا سالانہ اجلاس پہلی بار مظفر آباد، آزاد جموں و کشمیرمیں منعقد ہوا جو اسٹیٹ بینک کی ان کوششوں کا اظہار ہے جو وہ مالی سہولتوں سے محروم صوبوں اور علاقوں میں زرعی قرضے کی توسیع کے لیے مسلسل کر رہا ہے۔گورنر باجوہ نے مالی سال 2017-18 کے زرعی قرضے کے اہداف پر پیشرفت کا جائزہ لیتے ہوئے کمرشل بینکوں، مائکرو فنانس بینکوں اور مائکرو فنانس اداروں کی کوششوں کو سراہا جنہوں نے اپنے اہداف تقریبا مکمل کر لیے۔

(جاری ہے)

بینکوں نے مجموعی طور پر 972.6 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری کیے جو مقررہ ہدف کا 97 فیصد سے زائد، اور مالی سال 2016-17 میں جاری کردہ قرضوں سے 38 فیصد زائد ہے۔ زرعی قرضے کی طلب کے لحاظ سے بینکوں نے گذشتہ سال 72 فیصد طلب پوری کی جو اس سے پہلے 57 فیصد رہی تھی۔ گورنر نے مزید کہا کہ بینکوں کے زرعی قرضوں کا واجب الادا پورٹ فولیو بھی بڑھ کر 469 ارب روپے ہوگیا ہے اور جون 2018 کے اختتام پر 3.72 ملین قرض گیر ان قرضوں سے استفادہ کر رہے تھے۔

دورانِ سال زرعی قرضہ دینے والے بینکوں/ اداروں نے ساڑھے چار لاکھ نئے قرض گیروں کا اضافہ کیا۔ طارق باجوہ نے اجلاس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر بینکوں نے اپنے اہداف پورے کیے، تاہم بعض بینک بشمول زرعی ترقیاتی بینک، پی پی سی بی ایل، بعض ملکی نجی بینک اور اسلامی بینک اپنے اہداف کے بالکل قریب پہنچے۔ اگر صوبوں کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو تمام صوبوں اور علاقوں کو جاری کردہ زرعی قرضے میں دو ہندسی نمو ہوئی، تاہم بینکوں نے چھوٹے صوبوں / علاقوں میں اپنے مقررہ علاقائی اہداف حاصل کرنے کی سخت کوشش کی۔

انہوں نے زرعی قرضے دینے والے بینکوں اور اداروں پر زور دیا کہ چھوٹے صوبوں اور علاقوں میں اپنے اہداف حاصل کرنے کی اپنی کوششیں دگنی کردیں۔گورنر اسٹیٹ بینک نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں، ریونیو کے محکموں، کاشت کار تنظیموں اور دیگر متعلقہ فریقوں پر زور دیا کہ کاشت کاری کے جدید طریقے اپنا کر اپنی فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں، پیداوار محفوظ رکھنے کے لیے سرد خانوں اور گوداموں کی سہولت فراہم کریں، خود کار لینڈ ریونیو ریکارڈ کا طریقہ نافذ کریں اور آبپاشی کے کارگر طریقے اپنائیں تاکہ زرعی قرضے کو قابلِ عمل بزنس کے طور پر اپنانے کی بینکوں کی کوششوں میں مدد ملے۔

طارق باجوہ نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک سازگار ضوابطی ماحول فراہم کرنے کے علاوہ نچلی سطح پر زرعی قرضے بڑھانے کے لیے بھی کئی ترقیاتی اقدامات کر رہا ہے۔ ان اقدامات میں ملک کے مختلف علاقوں میں خصوصا چھوٹے صوبوں / علاقوں میں آگاہی سیشن کا انعقاد، اور زرعی یونیورسٹیوں کے اشتراک سے جاب فیئرز منعقد کرنا شامل ہے۔ گورنر نے زور دے کر کہا کہ تمام بینکوں کو چاہیے کہ شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کی بھرتی کو ترجیحی بنیاد پر حتمی شکل دیں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے زرعی جامعات کے ساتھ اشتراک سے ہونے والے اگلے جاب فیئرز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔

ان کے کلیدی خطاب کے بعد ایک پریزنٹیشن دی گئی جس میں مالی سال 2017-18 کے دوران زرعی قرضوں پر بینکوں کی کارکردگی کا ان کے اہداف کے لحاظ سے جائزہ لیا گیا۔ مالی سال 2018-19 کے لیے زرعی قرضوں کے اہداف تفویض کرتے ہوئے بتایا گیا کہ زرعی قرضے کی ضروریات کا تخمینہ 1,519 ارب روپے ہے جبکہ بینکوں کو مجموعی طور پر 1,250 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری کرنے کا ہدف دیا جا رہا ہے جو ضرورت کے مقابلے میں 82 فیصد ہے۔

زرعی قرضے کی صوبائی ضروریات، بینکوں کی مجموعی استعداد اور توسیع کے بزنس پلان پیشِ نظر رکھتے ہوئے اہداف کو بلحاظ صوبہ اور بلحاظ شعبہ تقسیم کیا گیا۔ یہ بات بھی اجاگر کی گئی کہ پہلی بار اسلامی بینکوں کو اور کمرشل بینکوں کی اسلامی بینکاری برانچوں کو 100 ارب روپے کے زرعی قرضے تقسیم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے تاکہ ان کی استعداد کو استعمال کیا جائے۔

مزید برآں، یہ طے کیا گیا ہے کہ سات لاکھ نئے قرض گیروں کا اضافہ کر کے ان کی مجموعی تعداد 4.42 ملین قرض گیروں تک پہنچائی جائے گی۔کمیٹی نے زرعی قرضوں میں نئی جہتیں اختیار کرنے کے لیے ان امور پر بھی غور کیا: زرعی قرضے کا پراسیس ڈجیٹلائز کرنا، ویلیو چین اور ویئر ہاوس ریسیٹ فنانسنگ، بلند اضافہ قدر کی حامل فصلیں، کاشت کاروں کو مشاورتی خدمات کی فراہمی، اور جیوگرافک انفارمیشن سسٹم(جی آئی ایس)کے ذریعے فصلوں کی فوری (real time) مانیٹرنگ۔

اجلاس کے اختتام پر طارق باجوہ نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ باضابطہ زرعی قرضے میں اضافے کے لیے تمام متعلقہ فریق اپنا اشتراک مسلسل جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ بینکوں کو ڈجیٹل ٹیکنالوجیز اپناتے ہوئے ویلیو چین فنانسنگ، بلند اضافہ قدر والی فصلیں، اور جدت طرازی اختیار کرنی ہوگی اور زرعی قرضے جاری کرنے ہوں گے، اور ملک میں معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے مزید روابط پیدا کریں۔

بینکوں کو مالی سال 2018-19 میں 1,250 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری کرنے کا سالانہ ہدف پورا کرنے کیلیے اپنے انفرا سٹرکچر میں موجود خلا پر قابو پانا ہوگا۔ موجودہ ہدف گذشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ اس لیے نہیں رکھا گیا ہے کہ بینکوں کو زرعی قرضوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے موقع دیا جائے۔بینکوں کو تمام صوبوں اور علاقوں میں ڈپازٹ اور قرضے کا باہمی تناسب بڑھانا ہوگا تاکہ مقامی معیشتوں کو سہارا دیا جائے۔

بینکوں کو چھوٹے کاشت کاروں کو قرضوں کی بروقت اور موثر فراہمی کے لیے الیکٹرانک لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم اپنانا ہوگا، اور اس مقصد کے لیے موجودہ تجرباتی منصوبوں میں توسیع لانا ہوگی۔اسلامی بینکوں اور برانچوں کو زرعی شعبے کی ضروریات کے مطابق قرضے کی جدت طراز پراڈکٹس تیار کرنی ہوں گی۔اجلاس کے اختتام سے قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا اور اپنی اس امید کا اظہار کیا کہ بینک چھوٹے صوبوں / علاقوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کریں گے تاکہ چھوٹے صوبوں / علاقوں میں اپنے اہداف پورے کرنے کے ساتھ ساتھ مالی سال 2018-19 کا بحیثیت مجموعی ہدف حاصل کیا جا سکے۔

اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سینئر حکام کے علاوہ بینکوں کے صدور/ سی ای اوز، تمام صوبوں کے ایوان ہائے زراعت کے ارکان، کاشت کار انجمنوں کے ارکان اور آزاد جموں و کشمیر کی کاشت کار کمیونٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔