اگست تک صدارتی انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے، الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخاب کا اعلان شیڈول کے مطابق کرنا چاہیئے تھا،صدارتی انتخاب میں بہت زیادہ تاخیر درست نہیں ہو گی،نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قانون و انصاف سید علی ظفر کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو

بدھ 15 اگست 2018 00:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اگست2018ء) نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قانون و انصاف سید علی ظفر نے کہا ہے کہ 25 اگست تک صدارتی انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے، الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخاب کا اعلان شیڈول کے مطابق کرنا چاہیئے تھا، آئین کہتا ہے کہ اگر اسمبلیاں ٹوٹ چکی ہوں جو کہ حقیقت تھی تو پھر انتخابات کے 30 دنوں کے اندر اندر صدارتی انتخابات کرانے ہوتے ہیں، 9 ستمبر کو صدر مملکت کی 5 سالہ مدت چونکہ پوری ہو جائے گی اس لیے 25 اگست سے پہلے پہلے یہ صدارتی انتخابات ہو جانے چاہیئں تھے لیکن کیونکہ ابھی تک الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کا کوئی شیڈول نہیں دیا اس لیے لگتا نہیں کہ یہ الیکشن 25 اگست سے قبل ہو پائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آئین میں 254 کی ایک شک ایسی ضرور ہے جو کہتی ہے کہ اگر اس الیکشن کے لیے وقت کی کوئی مدت پوری نہیں ہو سکتی تو اس الیکشن کو غیر قانونی قرار نہیں دیں گے، اس لیے امید ہے کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان 25 اگست تک یہ الیکشن نہیں کرا سکتی تو اس کے قریب قریب یہ الیکشن ضرور کرا دے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین کی شک کے مطابق واضح ہے کہ عام انتخابات کے 30 روز کے اندر اندر صدارتی انتخابات کرانے چاہیئں تھے اور ویسے بھی 9 ستمبر کے بعد صدر ممنون حسین ملک کے صدر نہیں رہیں گے اس لیے الیکشن کمیشن کو اس صدارتی انتخاب کا شیڈول بھی ساتھ ساتھ جاری کر دینا چاہیئے تھا تاکہ 25 اگست تک یہ الیکشن ہو جاتا جو نہیں ہوا لیکن ابھی بھی موقع ہے کہ اس پر فوری کام کیا جائے اور اگر ایک دو دن اوپر ہو بھی جاتا ہے تو اتنا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا لیکن صدارتی انتخاب میں بہت زیادہ تاخیر درست نہیں ہو گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک آئین کا تعلق ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء ہے اس کے مطابق تو پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہر طاقت دے دی ہے کہ انہوں نے ہی الیکشن کرانا ہے اور بروقت انتخابات کے لیے انہیں ہر سہولت بھی دی گئی ہے لیکن اگر الیکشن کمیشن اپنے اختیارات درست استعمال نہیں کر سکا یا ان کی کوئی ناکامی ہے تو اس کے خلاف آئین یا قانون میں تو کہیں بھی کوئی گنجائش نہیں کہ آپ کسی اور اتھارٹی کے پاس جائیں کیونکہ الیکشن کے معاملات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی سب سے بڑی اور معتبر اتھارٹی ہے اور وہ الیکشن کا ایک طرح کا سپریم کورٹ ہے لیکن آئین کا آرٹیکل 184c بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن اس سلسلے میں اپنی طاقت استعمال نہیں کر رہا تو انہیں ہدایات دینے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ 25 اگست کے لگ بھگ اس صدارتی الیکشن کا شیڈول جاری کر دے۔