شعراء، ادباء اور فنون لطیفہ کی مختلف اصناف سے وابستہ افراد معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ،سید سیف الرحمن

بدھ 15 اگست 2018 21:31

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 اگست2018ء) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے کہا ہے کہ شعراء، ادباء اور فنون لطیفہ کی مختلف اصناف سے وابستہ افراد معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ،انہیں سوشل سائنٹسٹ کی حیثیت حاصل ہے ، جہاں ایک جانب بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمہ داری شہر کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور شہری مسائل کا حل ہے وہیں دوسری جانب شہر میں ایسی ادبی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد بھی شامل ہے کہ جس سے شہریوں کو بہتر ادبی فضا میں کچھ سننے اور سمجھنے کا موقع مل سکے اور ان کی ذہن سازی بھی ہو ،شہر میں ادبی فضا کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کسی مخصوص دن یا وقت کا انتظار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے مستقل بنیادوں پر جاری رہنا چاہیے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلدیہ عظمیٰ کراچی اورکے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے اشتراک سے کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس کشمیر روڈ میں منعقدہ آزادی مشاعرہ سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں ضلعی میونسپل کارپوریشن شرقی کے چیئرمین معید انور نے بھی شرکت کی جبکہ مشاعرے کی صدارت معروف شاعر انور شعور نے کی۔ جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں جاذب قریشی، محسن اکبر آبادی،سعید الظفر ، ریحانہ روحی ، ڈاکٹر شوکت جوہر، ڈاکٹر سکندر،اختر سعیدی، سلمان صدیقی، رونق حیات،راشد نور، حجاب عباسی، نصرت عباسی، الحاج نجمی، ہدایت ساحل، سحر علی، آئیرن فرحت،نسیم نازش، احمد سعید خان، نعیم سمیر،نیل ، سید محتاط شاہ، تنویر سخن، ریحانہ احسان، شبیر نازش اور دیگر شامل تھے۔

مہمان خصوصی ڈاکٹر سیف الرحمن اور ڈی ایم سی شرقی کے چیئرمین معید انور نے شعراء کرام کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے نشانِ سپاس پیش کیا ،تقریب میں کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بلال منظر ایسوسی ایشن کے ممبران اور شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری نشر و اشاعت اورڈائریکٹر میڈیا علی حسن ساجد اور سلمیٰ خانم کو بہترین انتظامی امور پر نشانِ سپاس دیا گیا، مہمان خصوصی میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے کہا کہ یہ شہریوں کا حق ہے کہ انہیں شہر میں اچھا اور عمدہ ماحول فراہم کیا جائے،انہوں نے کہا کہ سڑکیں بنتی ہیں، پُل بنتے ہیں، انڈر پاسز بنتے ہیں لیکن ذہنوں کو روشن رکھنے کیلئے اقدامات نہیں کئے جاتے اور وہ بجھ جاتے ہیں اسی طرح جب کھیل نہیں ہوتے تو جسم کمزور ہوجاتا ہے اسی لیے ان سب سے بچنے کے لیے شہر میں ادبی اور ثقافتی تقاریب کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہوتے رہنا چاہیے، خاص طور پر مشاعرے انسان کو کئی مشکلوں کا حل دے دیتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں سائنسدانوں نے بھی بڑی تعداد میں حصہ لیاکیونکہ وہاں کے عوام سمجھتے ہیں کہ سائنسدان کئی مشکل چیزوں کو حل کرتے ہیں لہٰذا سیاسی عمل میں جو پیچیدگیاں اور مسائل ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کا حل بھی سائنسدانوں کے پاس ہو،انہوں نے کہا کہ شعراء حضرات کئی ثقیل باتوں کو بہت آسانی کے ساتھ اپنے اشعار میں بیان کردیتے ہیں اور سننے والے بھی ایک لمحے کے لیے مبہوت ہوجاتے ہیں کہ یہ تو بڑی آسان بات تھی جسے ہم اشعار میں سننے سے قبل اتنا مشکل سمجھ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بعض اشعار آپ کو نہ صرف زندہ رہنے کے لیے راستہ دکھاتے ہیں بلکہ آپ میں زندگی کی اُمنگ بھی پیدا کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جسمانی طور پر ہم نے آج سے 70سال پہلے آزادی حاصل کر لی تھی مگر ابھی ایک غلامی نے ہمیں اور جکڑا ہوا ہے اور وہ غلامی ہے لاعلمی اور جہالت، زچگی کے دوران مائوں کا انتقال ، پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات ،پولیو جیسا مرض ، صاف پانی جیسی بنیادی ضرورت اور معاشی اور سماجی انتشار ، لہٰذا ہمیں ان تمام مسائل کو حل کرنا ہے اور لاعلمی اور غلامی کے اس طوق کو بھی اپنے گلے سے اتار پھینکنا ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب جہالت کے اندھیروں سے باہر نکلا جائے اور لوگوں تک آگہی کے عمل کو پہنچایا جائے ، اس لیے میں سمجھتاہوں کہ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے شعراء کرام بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔