کراچی،سپریم کورٹ میں چاندنی سینما کے پلاٹ پر تعمیر شدہ کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر کے خلاف درخواست کی سماعت

مقامی بلڈر کی فلیٹس اور دکانوں کی بکنگ یا فروخت کے خلاف "اسٹے آرڈر" ختم کرنے کی استدعا مسترد

جمعہ 17 اگست 2018 23:47

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اگست2018ء) سپریم کورٹ میں چاندنی سینما کے پلاٹ پر تعمیر ہونے والی کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر کے خلاف درخواست کی سماعت، مقامی بلڈر کے جانب سے فلیٹس اور دکانوں کی بکنگ یا فروخت کے خلاف "اسٹے آرڈر" ختم کرنے کی استدعا فاضل بینچ نے مسترد کردی۔کراچی رجسٹری میں چاندنی سینما کی زمین پر غیر قانونی کمرشل پلازہ کی تعمیر کے خلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی۔

دوران سماعت مقامی بلڈر کی جانب سے معروف قانون دان حیدر وحید پیش ہوئے، انھوں نے 2 رکنی بینچ کے روبرو اپنے دلائل میں کہا کہ 1970 میں مذکورہ زمین کی لیز بطور ایمینٹی پلاٹ کے ہوئی جبکہ 1973 میں اس کی لیز کمرشل پلاٹ کے کنورڈ کرائی گئی۔

(جاری ہے)

انھوں نے ڈویڑن بینچ سے زبانی استدعا کی کہ اسٹے آرڈر کے حکم پر نظر ثانی کی جائے۔ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے ماضی میں جو کچھ بھی ہوا غلط ہوا۔

قانون کی رو سے فلاحی پلاٹس کو کمرشل پلاٹس میں تبدیل کیا ہی نہیں جاسکتا اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بلکل واضح ہے اور اس فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے جواب داخل کرانے کے لیے مہلت طلب کی گئی، جس پر فاضل بینچ نے متعلقہ اداروں کو مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ اس سے قبل درخواست گزار نے اپنے دلائل میں کہا کہ گلشن اقبال کے علاقے چاندنی چوک کا نام چاندنی سینما کی وجہ سے مشہور ہوا۔

مزکورہ زمین ایک رفاہی پلاٹ ہے جس پر ہائی رائز بلڈنگ کی تعمیر غیر قانونی ہے۔ درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سمیت دیگر صوبائی اداروں کے بعض کرپٹ افسران اس غیر قانونی بلڈنگ کی تعمیر کی سرپرستی میں ملوث ہیں۔ آئینی درخواست میں حکومت سندھ، ایس بی سی اے، کے ڈی اے سمیت دیگر متعلقہ اداروں اور مقامی بلڈر کو فریق بنایا گیا ہے۔

گزشتہ سماعت پر ڈیویڑن بینچ نے "چاندنی ریزیڈنسی" کے تمام فلیٹس اور دکانوں کی فروخت یا بکنگ پر تاحکم ثانی پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کراچی میں 35 ہزار سے زائد رفاہی پلاٹوں پر غیر قانونی قبضے سے متعلق "کے ڈی ای" کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے مزکورہ پلاٹس پر تعمیر ہونے والی غیر قانونی عمارتوں کو توڑنے کا حکم دے چکی ہے۔