وزیرا عظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان کے قوم سے خطاب کا متن (پانچواں حصہ)

پیر 20 اگست 2018 02:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اگست2018ء) پھر تعلیم جنگ بدر کے بعد نبی کریم ﷺ نے سب سے زیادہ زور تعلیم پر دیا اور پہلے سے ہی یہ کہہ دیا جب ان کے پاس پیسہ بھی نہیں تھا، ہتھیار بھی نہیں تھے لیکن جب آپ ﷺ نے تعلیم کو سب پر ترجیح دی اور کہا کہ مکہ کا جو بھی قیدی 10 لوگوں کو پڑھا لکھا دے وہ آزاد ہو سکتا ہے تو دنیا کے ایک عظیم انسان اور دنیا کے ایک عظیم لیڈر نے اپنی قوم کو بتایا کہ تعلیم کے بغیر قومیں آگے نہیں بڑھتیں لیکن آج ہمارا حال دیکھ لیں کہ سوا 2 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں لیکن مغرب تعلیم پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کر رہا ہے یعنی کہ جو قوانین آج سے 14 سو سال پہلے مدینہ میں بنائے گئے تھے وہ آج مغرب میں ہیں اور ہم کسی ایک پہ بھی نہیں چل رہے، یہ جو چیزیں آج شروع میں میں نے آپ کو بتائیں آپ نے گھبرانا نہیں کہ حالات کتنے برے ہیں اور یہ حالات اس لیے برے ہیں کہ ہم اپنے ان اصولوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کر رہے جن کے لیے یہ ملک بنا تھا، یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ پہلے یہاں ہندو پیسے والے تھے اور اب یہاں مسلمان پیسے والے آ گئے ہیں اس لیے یہ ملک نہیں بنا تھا بلکہ یہ ملک علامہ محمد اقبال جنہیں میں گزشتہ 500 سالوں کا سب سے بڑا مسلمان سمجھتا ہوں، ان کا یہ خواب تھا کہ ہم اس ملک کو ان اصولوں پہ کھڑا کریں گے جس کے اوپر نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی ریاست بنائی تھی، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم نے اب کرنا کیا ہے، میری ساری زندگی ایسی گزری ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا، آپ کپتان نہیں بن سکتے، آپ تیز بائولر نہیں بن سکتے، ہسپتال نہیں بن سکتا، پھر دیہات میں نجی شعبے میں یونیورسٹی نہیں بنا سکتا، پھر ٹوپارٹی سسٹم میں تیسری جماعت نہیں آ سکتی یہ سب کچھ میں ساری زندگی سنتا رہا ہوں لیکن میں نے اپنے ساری زندگی میں ایک چیز سیکھی ہے اور وہ ہے مقابلہ کرنا، میں انشااللہ آپ سب کو، آپ نے میری ٹیم بننا ہے اور ہم آج جہاں کھڑے ہیں میں آپ کو اس کا مقابلہ کر کے دکھائوں گا، ہم کیسے اس سے نکلیں گے، میں شروع کروں گا اپنے آپ سے، سب سے پہلے وزیراعظم ہائوس میں جو 524 ملازمین ہیں، ایک تو میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ میں وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہ رہا اور ملٹری سیکرٹری ہائوس جو کہ وزیراعظم ہائوس سے باہر ہے اس میں میں رہ رہا ہوں جو صرف تین بیڈرومز کا گھر ہے جہاں صرف دو ملازم رکھوں گا اور دو گاڑیاں رکھوں گا اور وہ دو گاڑیاں بھی اس لیے کہ سکیورٹی کا مسئلہ بتا رہے ہیں، اصل میں تو میں اپنے گھر میں رہنا چاہتا تھا اور حلکومت کا کوئی پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن چونکہ ہماری ایجنسیوں نے بتایا کہ میری جان کو بھی خطرہ ہے اور مجھے سکیورٹی کی ضرورت ہے اس لیے میں یہاں رہ رہا ہوں نہیں تو میں آرام سے بنی گالہ میں رہ سکتا تھا تاکہ کوئی بھی حکومتی خرچہ نہ ہو۔

(جاری ہے)

یہ جو گاڑیاں ہیں ان کی ہم انشااللہ نیلامی کریں گے اور میں بڑی بڑی کاروباری شخصیات کو دعوت دوں گا کہ وہ آئیں اور ہماری یہ جو بلٹ پروف گاڑیاں ہیں جو کہ باہر سے بڑی مہنگی منگوائی گئی ہیں ان کی ہم نیلامی کریں گے اور یہ سار ا پیسہ ہم انشااللہ قومی خزانے میں جمع کرائیں گے، اس کے علاوہ جو میری سوچ ہے اس کے مطابق تمام گورنر ہائوسز اور اپنے دو وزرائے اعلیٰ ہائوسز میں سادگی لیکر آئیں گے ،ہم اپنے خرچے بھی کم کریں گے اور اس بارے میں آپ کو آگاہ بھی رکھیں گے کہ ہم اپنے خرچے کتنے کم کر رہے ہیں، ہم آپ کو بتائیں گے کہ پہلے کیا خرچے تھے اور اب کیا ہیں اور یہ جو گورنر ہائوسز ہیں ان میں ہمارا کوئی بھی گورنر نہیں رہے گا اور ان سارے گورنر ہائوسز کے لیے ہم نے دانشوروں کی ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں ہر طرح کے ماہرین موجود ہیں اور ہماری کل ہونے والی کابینہ میٹنگ کے بعد میںاس کمیٹی کی بھی میٹنگ بلائوں گا جس میں دیکھیں گے کہ ہم نے ان کا کیا کرنا ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو، وزیراعظم ہائوس کے متعلق میری جو سوچ ہے وہ یہ ہے کہ ایک اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی بنائیں گے جس میں ریسرچ ہو گی، جس میں دنیا بھر سے ہم بڑے بڑے اسکالرز کو بلائیں گے اور ایک ٹاپ کلاس یونیورسٹی پاکستان میں بنائیں گے کیونکہ یہ ایک بہت زبردست جگہ ہے اور یونیورسٹی کے لیے ایسی ہی جگہ ہونی بھی چاہیئے، ایک تو میری یہ سوچ ہے اور باقیوں سے متعلق ہم آپ کو بتاتے رہیں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے، ایک ہم پوری ٹاسک فورس بنائیں گے اور ڈاکٹر عشرت حسین کے سربراہی میں یہ ٹاسک فورس بنے گی جس کا کام ہی یہی ہو گا کہ ہر ڈیپارٹمنٹ میں ہم خرچے کم کریں، شاہانہ رہن سہن میں ہونے والے عوام کے پیسے کے خرچے کم سے کم کریں گے اور ہر جگہ ان خرچوں کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے اور لوگوں کو یہ احساس دلوانا ہے اور میں آپ کو بھی یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری یہ بڑی بری عادت ہے اور ہمیں یہ بری عادت پڑ گئی ہے کہ ہم باہر کے ملکوں کی امداد اور قرضوں پہ گزارا کرتے رہیں اور ہمیں کوئی برا بھی نہیں لگتا کہ ہم لوگوں کے پاس قرضہ لینے چلے جاتے ہیں اور ہمارے جو سربراہ ہوتے ہیں وہ کبھی کسی ملک سے پیسے مانگتا ہے کبھی کسی سے پیسے مانگتا ہے، کبھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرضے لیتے ہیں، دیکھیں کبھی کوئی ملک ترقی ایسے نہیں کرتا، کوئی بھی ملک جو کھڑا ہوتا ہے وہ اپنے ہی پیروں پہ کھڑا ہوتا ہے، قرضہ تو ہوتا ہے صرف چھوٹے سے وقت کے لیے ایک مشکل وقت آتا ہے مثلا جرمنی اور جاپان جنگ عظیم کے بعد تباہ ہو گئے اور انہوں نے قرضہ لیا ایک مخصوص پیریڈ کے لیے اور اس کے بعد وہ قوم اپنے پیروں پہ کھڑی ہو گئی، ہمیں بھی اپنے پیروں پہ کھڑے ہونا ہے، جیسے ہم اب تک گزارا کرتے آئے ہیں ویسے اب ہم گزارا نہیں کر سکتے اور ویسے بھی اگلے قرضہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں اور جو بھی آپ کو قرضہ دیاتا ہے وہ آپ کی آزادی لے جاتا ہے، آپ کی عزت چلی جاتی ہے، آپ کو کتنا برا لگے گا، پتہ نہیں آپ کو برا لگے یا نہ لیکن مجھے کتنا برا لگے گا کہ میں ملک سے باہر جا کے لوگوں سے قرضہ مانگوں، میں کبھی کسی ملک میں جا رہا ہوں پیسے مانگنے اور کبھی کسی ملک میں جا رہا ہوں، میں اپنے ملک میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے قرضہ مانگنے پاکستان کی سڑکوں پہ نکلا ہوا ہوں لیکن میں نے پاکستانیوں سے پیسہ مانگا ہے لیکن اگر مجھے کوئی کہے کہ کسی باہر والے ملک سے جا کر پیسہ مانگو تو اس کی مجھے بھی شرم آئے گی اور آپ کے لیے کتنا برا ہو گا کہ جب آپ کے ملک کا ایک سربراہ پیسے مانگتا ہے تو سارے ملک کی عزت چلی جاتی ہے، دیکھیں دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت کرتا ہے، جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی جس میں قومی غیرت نہیں ہوتی دنیا بھی اس کی عزت نہیں کرتی، ہمیں برا لگتا ہے، ہم کئی دفعہ ملک سے باہر گئے ہیں، پاکستانیوں کو وہ علیحدہ ایک لائن میں کھڑے کر دیتے ہیں اور دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ اپنا پاسپورٹ لیکر جا رہے ہوتے ہیں، کتنی شرم کی بات ہے، یہ ہمارا قصور ہے ، یہ دنیا کا قصور نہیں ہے، ہم جو ہاتھ پھیلا کے دنیا کے سامنے پھر رہے ہوتے ہیں۔