Live Updates

وزیرا عظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان کے قوم سے خطاب کا مکمل متن

پیر 20 اگست 2018 04:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اگست2018ء) وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ میں آج سب سے پہلے اپنے تمام کارکنوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو 22 سال پہلے اس تحریک اور اس جہاد میں میرے ساتھ شروع ہوئے تھے، دو قسم کی سیاست ہوتی ہے جس میں ایک تو کوئی اپنا کیرئیر بنانے کے لیے کرتا ہے اور دوسرا میرے رول ماڈل قائداعظم محمد علی جناح جو ایک مشن کے لیے سیاست کرتے ہیں جو کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے مدینہ شریف کی ریاست میں آ کے ایک مشن کے طور پر دنیا کی تاریخ میں انقلاب لیکر آئے، میں کبھی بھی اس سیاست کو ایک کیرئیر اور پروفیشن نہیں سمجھتا تھا، میں آج سے 22 سال پہلے اس ملک میں سیاست کے لیے آیا تو میرا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے ملک کو وہ ملک بنائیں جو اسے بننا چاہیئے تھا یعنی کہ علامہ محمد اقبال کا جو خواب تھا ایک اسلامی فلاحی ریاست جس کی ہم نے دنیا میں مثال دینی تھی کہ حقیقی اسلام کیا ہے، مدینہ کی ریاست میں وہ کیا چیزیں تھیں کہ جو دنیا میں اتنا بڑا انقلاب لیکر آئے اور جو قوم پہلے کچھ بھی نہیں تھے، تھوڑے سے قبیلے تھے لیکن پھر انہوں نے دنیا کی امامت کی، میں آج ان ساتھیوں کو یاد کر رہا ہوں بالخصوص ان دو کو جو میرے ساتھ شروع ہوئے تھے ان میں سے ایک احسن رشید جو آج سے 22 سال پہلے میرے ساتھ اس جدوجہد میں میرے ساتھ شروع ہوئے لیکن کینسر کی جنگ ہارنے کی وجہ سے آج وہ ہم میں موجود نہیں اور دوسری سلونی بخاری وہ بھی شروع میں اسی مشن میں ہمارے ساتھ چلیں تھیں جو آج ہم میں موجود نہیں جنہیں میں خاص طور پر یاد کر رہا ہوں، میں ان سارے کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں، خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو بڑے مشکل وقت میں بھی میرے ساتھ چلے، جن کا گھروں میں مذاہق اڑا کرتا تھا، لوگ ان کا مذاہق آراتے تھے کہ آپ کس ٹانگہ پارٹی کے ساتھ لگے ہوئے ہو تو میں آج ان سب کارکنوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ ان تمام لوگوں کے بغیر میں آج یہاں نہیں پہنچ سکتا تھا، میں سب سے پہلے اپنی قوم کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں کہ ہم آج کدھر ہیں، کن مسئلے مسائل میں ہیں اور ہمیں کن چیلنجز کا سامنا ہے اور پھر میں انشاللہ ان سب کا حل بھی بتائوں گا، پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اتنے معاشی حالات نہیں تھے جو آج ہیں، آج پاکستان کا قرضہ 28 ہزار ارب روپے کا ہے جبکہ آج سے 10 سال قبل پاکستان کا یہ قرضہ 6 ہزار ارب روپے تھا یعنی کہ ملکی 60 سال میں ہمارا قرضہ 6 ہزار ارب روپے تھا جو 2013ء میں 6 ہزار ارب روپے سے 15 ہزار ارب روپے پہ چلا گیا اور آج یہ قرضہ 28 ہزار ارب روپے پر پہنچ گیا ہے، ملکی تاریخ کے 60 سالوں کا قرضہ ایک طرف اور گزشتہ 10سالوں کا قرضہ ایک طرف ہے اور ہم انشااللہ آپ کے سامنے یہ لیکر آئیں گے کہ یہ اتنا پیسہ کدھر گیا اور اگر ملک پر اتنا زیادہ قرضہ چڑھا ہے تو وہ پیسہ گیا کدھر ہے، ہم نے اس پیسے سے کیا کیا ہے، دوسری بات یہ کہ آج ہمارے حالات یہ ہیں کہ ہم ان قرضوں کے اوپر جو سود دے رہے ہیں اس سود کی ادائیگی کے لیے بھی ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں، یعنی کہ قرضے اتارنے کے لیے نہیں بلکہ ان قرضوں کا سود اتارنے کے لیے بھی ہم قرضے لے رہے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے آخری سال میں ان کا بیرون ملک کا سالانہ قرضہ 2 ارب ڈالر تھا، پچھلے ایک سال میں ہر مہینے ہمیں 2 ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑ رہا ہے اور جب 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت گئی تو 60 ارب ڈالر ہمارا بیرونی ملک کا قرضہ تھا جو آج 95 ارب ڈالر ہے اور یہی ہمارے ملک کا اصل مسئلہ ہے کہ ہمارے بیرون ملک کے قرضے اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں اور روپے پر جو سب سے زیادہ دبائو ہے اس کی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ ہمارے بیرون ملک کے قرضے اتنی تیزی سے بڑھے اور ہم آج ادھر پہنچ گئے ہیں کہ ہمیں سب سے زیادہ مشکل یہی ہے کہ ہم ان قرضوں کو واپس کیے کریں، میں اس کے اوپر بھی آئوں گا کہ اسے کیسے حل کرنا ہے گھبرانے کی بات نہیں ہے کیونکہ انشاللہ میں آپ کو اس کا حل بھی بتائوں گا لیکن جو دوسری چیز میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے اوپر اتنے قرضے چڑھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف معاشرہ جو اپنے انسانوں کے اوپر خرچ کرتا ہے اور انسانوں کے جو حالات ہیں وہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور یہ عمران خان نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ’’یو این ڈی پی‘‘ کی رپورٹ ہے جس کے مطابق ہمارے پاکستان کے اندر اور دنیا میں ہم ان 5 ممالک میں سے ہیں جن میں سب سے زیادہ ہمارے بچے گندا پانی پینے کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے 5 سال سے کم عمر میں ہی مر جاتے ہیں اور پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں بھی شامل ہے جہاں زچگی کے دوران سب سے زیادہ ہماری خواتین مرتی ہیں، دنیا بھر کے ان ٹاپ 5 ممالک میں ہم شامل ہیں، بدقسمتی سے ہم دنیا کے ان ٹاپ 5 ممالک میں سے ہیں جن میں بچوں کو پوری خوراک اور پوری نیوٹریشن نہ ملنے کی وجہ سے نہ تو ان کا دماغ پوری طرح بڑھتا ہے اور نہ ہی ان کا قد بڑھتا ہے، میں آج تک لوگوں کو بتاتا رہا ہوں لیکن لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، آج میں آپ کو ایک تصویر دکھاتا ہوں جس میں ایک طرف 2 سال کا ایک بچہ دکھایا گیا ہے جسے نارمل خوراک مل رہی ہے اور اس کی ذہنی گروتھ ٹھیک طرح سے ہو رہی ہے اور دوسری طرف بھی 2 سال کا ہی ایک ایسا بچہ دکھایا گیا ہے جسے پوری طرح سے خوراک نہیں مل رہی جس کی وجہ سے اس کا دماغ پوری طرح سے بڑھ ہی نہیں رہا اور یہ ہم پاکستان کے صرف 45 فیصد بچوں کی بات کر رہے ہیں یعنی کہ تقریبا ہر دوسرا پاکستانی بچہ اس بیماری میں مبتلا ہے کیونکہ ہم انہیں پوری طرح سے خوراک ہی نہیں دے پا رہے اور انہیں نیوٹریشن بھی پوری نہیں مل رہی اور وہ زندگی کی دوڑ میں شروع ہی سے پیچھے رہ گئے ہیں، وہ مقابلہ ہی نہیں کر سکتے، وہ اکیسویں صدی میں آگے ہی نہیں جا سکتے، سوچیں کہ ان کے ماں باپ پہ کیا گزرتی ہو گی جب وہ اپنے بچوں کا یہ حال دیکھتے ہوں گے تو میں آپ کو یہ صرف اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ آپ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ آج ہم کدھر کھڑے ہیں اور انشااللہ ہم یہ کیسے اپنا راستہ بدلیں گے۔

(جاری ہے)

ہمارے پاس دو راستے ہیں ایک وہ جس پہ ہم چلتے آ رہے ہیں اور یہاں پہنچ گئے ہیں، ایک مقروض قوم، اپنے بچوں پہ خرچ کرنے کے لیے پیسہ ہی نہیں، اپنے غریب لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لیے پیسہ ہی نہیں، اپنے کسانوں کی مدد کرنے کے لیے پیسہ ہی نہیں، بچوں سمیت اپنے لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی نہیں دے سکتے، ہم روزگار نہیں دے سکتے، قرضے چڑھتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ایک اور راستہ ہے جو میں ابھی آپ کو بتائوں گا کہ وہ دوسرا راستہ کیا ہے اور ہم کیسے اس پر جائیں گے، ہمارے لیے ایک اور شرمناک چیز جو ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف یہ جو حالت ہیں وہ بھی آپ دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں صاحب اقتدار لوگوں کا جو رہن سہن وہ میں آپ کو بتانے لگا ہوں، پاکستان کے وزیراعظم کے 524 ملازمین ہیں، ایک طرف ملک مقروض ہے اور دوسری طرف ملک کے وزیراعظم کے ملازمین دیکھیں، ایک طرف وزیراعظم یعنی کہ میں اس کی 80 گاڑیاں ہیں جن میں 33 بلٹ پروف گاڑیاں ہیں اور ایک ایک بلٹ پروف گاڑی کی قیمت 5 کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہے اور ہیلی کاپٹرز ہیں، جہاز ہیں جبکہ وزیراعظم ہائوس گیارہ سو کنال پر محیط ہے پھر ہمارے گورنر ہائوسز ہیں جن پر قوم کا کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا ہے، پھر ہمارے ریسٹ ہائوسز ہیں، پھر ہمارے وزرائے اعلیٰ ہائوسز ہیں جتنی ان کی گاڑیاں ہیں اور جتنے ہمارے حکومتی سیکرٹریز ہیں ان کی بھی دو دو تین گاڑیاں ہیں اور ہمارے ڈی سیز، ہمارے کمشنرز بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں، ایک طرف ایک قوم مقروض ہے جو اپنے لوگوں کے اوپر پیسہ خرچ نہیں کر سکتی اور دوسری طرف کچھ صاحب اقتدار لوگ ایسے رہتے ہیں جس طرح پہلے یہاں انگریزوں نے حکومت کی تھی ۔

انہوں نے ہمارے حکمرانوں کی طرح بڑے بڑے گورنر ہائوسز بنائے تھے کیونکہ ہم اس وقت غلام تھے لیکن اب جبکہ ہم آزاد ہو چکے ہیں لیکن اب بھی ہم ویسے ہی رہ رہے ہیں اور ہمیں کوئی فکر نہیں ہے کہ ہم اس ملک میں لوگوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے لیکن ہمارا رہن سہن دیکھیں، آپ صرف یہ دیکھیں کہ ملک کے پچھلے وزیراعظم نے اپنے بیرون ملک دوروں پہ کتنا خرچ کیا ہے، کوئی 65 کروڑ روپیہ ایک وزیراعظم اپنے ملک کے بیرونی دوروں پہ خرچ کرتا ہے، یہ کیا کرنے جاتے ہیں باہر، مجھے کوئی یہ بتائے کہ جو 65 کروڑ روپیہ آپ اپنے بیرون ملک دوروں پہ خرچ کرتے ہیں یہ پیسہ کدھر جاتا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی کا بجٹ 16 کروڑ روپیہ تھا اور سنا ہے کہ انہوں نے 8 کروڑ روپیہ صرف اپنے بیرون ملک دوروں پہ خرچ کیا، یہ کیا کرتے ہیں وہاں جا کے کوئی ملک فتح کرنے جا رہے ہیں بتائیں تو سہی کہ کیا کرتے ہیں یہ لوگ وہاں جا کے، کیا کرنے جاتے ہیں وہاں، میں آج آپ کے سامنے یہ ساری باتیں اس لئے رکھ رہا ہوں کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے ذہنوں میں ڈال لیں کہ اگر ہم نے اپنا یہ رخ نہ بدلا تو، ہم اس وقت تباہی کی طرف جا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ میں کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کرے، ہم نے اگر اپنے آپ کو اس تباہی سے روکنا ہے تو ہمیں اپنی سوچ بدلنی پڑے گی، ہمیں اپنے طور طریقے بدلنے پڑیں گے، ہمیں اپنا رہن سہن بدلنا پڑے گا اور اس قوم کے لیے جو سب سے زیادہ ضروری چیز ہے وہ یہ کہ ہمیں اپنے دل میں رحم پیدا کرنا پڑے گا کیونکہ ہماری آدھی آبادی صیحیح طرح سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتی کیونکہ پاکستان کے 45 فیصد بچوں کو ہم صیحیح طرح سے کھانا بھی نہیں دے پا رہے اور ہمیں اپنے دل میں یہ پید اکرنا پڑے گا کہ جب تک ہم نے اپنی سوچ نہیں بدلی، ہمارا سوا دو کروڑ بچہ آج بھی سکولوں سے باہر ہے جو بالکل بھی نہیں پڑھ رہے ان کا کیا بنے گا یعنی کہ اگر یہ آبادی اسی طرح بڑھتی گئی اور ہم اپنے بچوں کو تعلیم بھی نہیں دیں گے تو پھر ظاہر ہے لوگوں کو روزگار تو نہیں ملے گا اور اگر یہ ملک اسی طرح جاتا رہا، پانی کا مسئلہ کون حل کرے گا، پاکستان کے لیے ایک اور مسئلہ آیا ہوا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے اور دنیا میں پاکستان اس ساتویں نمبر پر ہے جس سے پاکستان گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا کیونکہ موسم گرم ہو رہا ہے، ہم ادھر کھڑے ہیں، میں پھر سے آپ کو کہوں گا کہ آج وقت ہے کہ ہم اپنی حالت بدلیں میرے، آپ کے بلکہ ہم سب مسلمانوں کے ایک ہی رول ماڈل ہیں جنہیں ہم سب فالو بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں بھی فرماتے ہیں کہ ان کی زندگی سے سیکھو اور وہ ہیں ہمارے نبی کریم ﷺ، تو میں آپ کو بتائوں کہ انہوں نے ان عربوں کو جو ریگستان میں رہتے تھے، جو قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے، جو آپس میں لڑتے رہتے تھے، جن کے دو طرف سپر پاورز تھیں، رومن امپائرز ایک طرف اور پرشیئن امپائرز ایک طرف تھے اور دنیا کے اس عظیم لیڈر نے کیا چیزیں وہاں کی تھیں کہ وہ قبیلوں کو بھی انہوں نے اکٹھا کر دیا اور انہوں نے چند سالوں کے اندر انہیں دنیا کی عظیم قوم بنا دیا، وہ کیا چیزیں تھیں، میں پہلے وہ چند آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور وہ تاثر جو قوم بھی اپناتی ہے وہ اوپر چلی جاتی ہے۔

آج جو تاثر میں بتائوں گا وہ یہ کہ انہوں نے سب سے پہلے قانون کی بالادستی قائم کی اور انہوں نے ایک بیان دیا کہ اگر میری بیٹی بھی قانون توڑے گی تو میں اس کو بھی سزا دوں گا یعنی کہ قانون سے اوپر کوئی نہیں ہے، دو خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کٹہرے کے اندر کھڑے ہوئے، عدالت میں گئے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ ایک یہودی سے مقدمہ ہار جاتے ہیں، خلیفہ وقت ایک یہودی شہری سے مقدمہ ہارتے ہیں جس سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں کہ ایک سارے لوگ یہاں تک کہ خلیفہ بھی قانون سے نیچے ہے ، دوسرا یہ کہ اقلیتیں بھی برابر کے شہری ہیں تب انہوں نے کہا کہ قانون کے سامنے سارے انسان ایک برابر ہیں ، پھر انہوں نے زکوٰة کا کہا ، زکوٰة کا مطلب کہ حیثیت کے مطابق لوگ ٹیکس دیں گے کہ جتنا کسی کے پاس پیسہ ہو گا اس کے اوپر اتنی ہی زیادہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ ان لوگوں پہ پیسہ خرچ کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے زیادہ نہیں دیا جسے پروگریسو ٹیکسیشن بھی کہتے ہیں جو آج مغرب کے اندر موجود ہے اور ناروے، سویڈن اور ڈنمارک جیسے ممالک جنہیں مہذب معاشرہ کہا جاتا ہے ، وہاں پروگریسو ٹیکسیشن موجود ہے اور پیسے والے ٹیکس دیتے ہیں جن کے پیسے سے نچلے طبقے کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے، غریبوں کی بنیادی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک، اعلیٰ علاج اور بے روزگاری کی صورت میں پیسے دئیے جاتے ہیں ، اگر کوئی عدالت میں جائے تو حکومت اسے وکیل کر کے دیتی ہے ، یہ ساری چیزیں آج مغرب میں موجود ہیں اور یہی چیزیں اس وقت نبی کریم ﷺ مدینہ کی ریاست میں لیکر آئے اور مدینہ کی ریاست میں ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کا اعلان تھا کہ اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرے تو میں عمر اس کا ذمہ دار ہوں یعنی صرف انسانوںکی ہی نہیں بلکہ جانوروں کی بھی ذمہ داری عائد تھی ، جو آج مغرب میں ہے اور مغرب میں آپ کو کتے بھی بھوکے مرتے نظر نہیں آئیں گے اور جانوروں کے لیے ہسپتال بنائے گئے ہیں، ہمارے جو انسانوں کا حال ہے اس سے بہتر مغرب میں جانوروں کا حال ہے۔

نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی ریاست میں جو نظام قائم کیا وہاں میرٹ تھا اور وہی چیز آج مغرب میں ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں اور میرٹ کے مطابق ہی ہر کام کیا جاتا تھا، جنگ احد میں خالد بن ولید نے مسلمانوں کو تقریبا شکست دے دی تھی لیکن ہمارے نبی ﷺ انہیں سپہ سالار بنایا کیونکہ وہاں میرٹ کا نظام تھا اور جو بھی مسلمان اوپر گئے ، میرٹ کے نظام کے تحت ہی گئے اور آج یہ ساری چیزیں مغرب میں ہیں لیکن یہاں نہیں اور پھر ملک کے سربراہ اور خلیفہ کی ذمہ داری کیا تھی ، سب سے پہلے صادق اور امین ہونا ، جو آج مغرب میں ہے اور امریکہ سمیت برطانیہ کے صدر کو بھی جھوٹ بولنے پر نکالا گیا اور مدینہ کی ریاست میں بھی تمام خلفاء کا صادق اور امین ہونا لازم تھا اور دوسری چیز کہ وہ سب اپنے آپ کو احتساب کے لیے عوام کے سامنے پیش کرتے تھے، حضرت عمر مسجد میں کھڑے تھے ، ایک آدمی نے سوال کیا کہ اے عمر آپ نے یہ کپڑے کہاں سے خریدے تو آپ نے برا نہیں مانا اور بتایا کہ ان کپڑوں کے لیے میں نے اپنے بیٹے سے پیسے لیے یعنی کہ حکمران بھی قانون سے اوپر نہیں بلکہ وہ عوام کو جوابدہ بھی ہے جو آج مغرب میں ہے اور ان کے حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور پھر مفادات کا ٹکرائو ، حضرت ابو بکر صدیق جب خلیفہ بنے تو آپ نے اپنی کپڑے کی دوکان فوری طور پر بند کی کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ کپڑے کی باقی دکانوں والے میرا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ میں اب خلیفہ وقت ہوں اور آج مغرب کے اندر یہ قانون بھی موجود ہے لیکن ہمارے یہاں صاحب اقتدار لوگوں کو دیکھ لیں کہ جب وہ اقتدار میں آئے تب ان کے پاس کیا تھا اور آج کیا ہے یعنی یہ لوگ تو یہاں اقتدار میں آتے ہی پیسہ بنانے کے لیے ہیں لیکن مغرب میں ایسا نہیں اور جو جمہوریتیں بھی آگے گئی ہیں وہاں اس بات کی اجازت نہیں کہ آپ اقتدار کے ذریعے پیسہ بنا سکیں اور یہی قانون آج سے 14 سو سال پہلے مدینہ کی ریاست میں بنا کہ کوئی بھی اقتدار سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

پھر تعلیم جنگ بدر کے بعد نبی کریم ﷺ نے سب سے زیادہ زور تعلیم پر دیا اور پہلے سے ہی یہ کہہ دیا جب ان کے پاس پیسہ بھی نہیں تھا، ہتھیار بھی نہیں تھے لیکن جب آپ ﷺ نے تعلیم کو سب پر ترجیح دی اور کہا کہ مکہ کا جو بھی قیدی 10 لوگوں کو پڑھا لکھا دے وہ آزاد ہو سکتا ہے تو دنیا کے ایک عظیم انسان اور دنیا کے ایک عظیم لیڈر نے اپنی قوم کو بتایا کہ تعلیم کے بغیر قومیں آگے نہیں بڑھتیں لیکن آج ہمارا حال دیکھ لیں کہ سوا 2 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں لیکن مغرب تعلیم پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کر رہا ہے یعنی کہ جو قوانین آج سے 14 سو سال پہلے مدینہ میں بنائے گئے تھے وہ آج مغرب میں ہیں اور ہم کسی ایک پہ بھی نہیں چل رہے، یہ جو چیزیں آج شروع میں میں نے آپ کو بتائیں آپ نے گھبرانا نہیں کہ حالات کتنے برے ہیں اور یہ حالات اس لیے برے ہیں کہ ہم اپنے ان اصولوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کر رہے جن کے لیے یہ ملک بنا تھا، یہ ملک اس لیے نہیں بنا تھا کہ پہلے یہاں ہندو پیسے والے تھے اور اب یہاں مسلمان پیسے والے آ گئے ہیں اس لیے یہ ملک نہیں بنا تھا بلکہ یہ ملک علامہ محمد اقبال جنہیں میں گزشتہ 500 سالوں کا سب سے بڑا مسلمان سمجھتا ہوں، ان کا یہ خواب تھا کہ ہم اس ملک کو ان اصولوں پہ کھڑا کریں گے جس کے اوپر نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی ریاست بنائی تھی، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم نے اب کرنا کیا ہے، میری ساری زندگی ایسی گزری ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا، آپ کپتان نہیں بن سکتے، آپ تیز بائولر نہیں بن سکتے، ہسپتال نہیں بن سکتا، پھر دیہات میں نجی شعبے میں یونیورسٹی نہیں بنا سکتا، پھر ٹوپارٹی سسٹم میں تیسری جماعت نہیں آ سکتی یہ سب کچھ میں ساری زندگی سنتا رہا ہوں لیکن میں نے اپنے ساری زندگی میں ایک چیز سیکھی ہے اور وہ ہے مقابلہ کرنا، میں انشااللہ آپ سب کو، آپ نے میری ٹیم بننا ہے اور ہم آج جہاں کھڑے ہیں میں آپ کو اس کا مقابلہ کر کے دکھائوں گا، ہم کیسے اس سے نکلیں گے، میں شروع کروں گا اپنے آپ سے، سب سے پہلے وزیراعظم ہائوس میں جو 524 ملازمین ہیں، ایک تو میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ میں وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہ رہا اور ملٹری سیکرٹری ہائوس جو کہ وزیراعظم ہائوس سے باہر ہے اس میں میں رہ رہا ہوں جو صرف تین بیڈرومز کا گھر ہے جہاں صرف دو ملازم رکھوں گا اور دو گاڑیاں رکھوں گا اور وہ دو گاڑیاں بھی اس لیے کہ سکیورٹی کا مسئلہ بتا رہے ہیں، اصل میں تو میں اپنے گھر میں رہنا چاہتا تھا اور حلکومت کا کوئی پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن چونکہ ہماری ایجنسیوں نے بتایا کہ میری جان کو بھی خطرہ ہے اور مجھے سکیورٹی کی ضرورت ہے اس لیے میں یہاں رہ رہا ہوں نہیں تو میں آرام سے بنی گالہ میں رہ سکتا تھا تاکہ کوئی بھی حکومتی خرچہ نہ ہو۔

یہ جو گاڑیاں ہیں ان کی ہم انشااللہ نیلامی کریں گے اور میں بڑی بڑی کاروباری شخصیات کو دعوت دوں گا کہ وہ آئیں اور ہماری یہ جو بلٹ پروف گاڑیاں ہیں جو کہ باہر سے بڑی مہنگی منگوائی گئی ہیں ان کی ہم نیلامی کریں گے اور یہ سار ا پیسہ ہم انشااللہ قومی خزانے میں جمع کرائیں گے، اس کے علاوہ جو میری سوچ ہے اس کے مطابق تمام گورنر ہائوسز اور اپنے دو وزرائے اعلیٰ ہائوسز میں سادگی لیکر آئیں گے ،ہم اپنے خرچے بھی کم کریں گے اور اس بارے میں آپ کو آگاہ بھی رکھیں گے کہ ہم اپنے خرچے کتنے کم کر رہے ہیں، ہم آپ کو بتائیں گے کہ پہلے کیا خرچے تھے اور اب کیا ہیں اور یہ جو گورنر ہائوسز ہیں ان میں ہمارا کوئی بھی گورنر نہیں رہے گا اور ان سارے گورنر ہائوسز کے لیے ہم نے دانشوروں کی ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں ہر طرح کے ماہرین موجود ہیں اور ہماری کل ہونے والی کابینہ میٹنگ کے بعد میںاس کمیٹی کی بھی میٹنگ بلائوں گا جس میں دیکھیں گے کہ ہم نے ان کا کیا کرنا ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو، وزیراعظم ہائوس کے متعلق میری جو سوچ ہے وہ یہ ہے کہ ایک اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی بنائیں گے جس میں ریسرچ ہو گی، جس میں دنیا بھر سے ہم بڑے بڑے اسکالرز کو بلائیں گے اور ایک ٹاپ کلاس یونیورسٹی پاکستان میں بنائیں گے کیونکہ یہ ایک بہت زبردست جگہ ہے اور یونیورسٹی کے لیے ایسی ہی جگہ ہونی بھی چاہیئے، ایک تو میری یہ سوچ ہے اور باقیوں سے متعلق ہم آپ کو بتاتے رہیں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے، ایک ہم پوری ٹاسک فورس بنائیں گے اور ڈاکٹر عشرت حسین کے سربراہی میں یہ ٹاسک فورس بنے گی جس کا کام ہی یہی ہو گا کہ ہر ڈیپارٹمنٹ میں ہم خرچے کم کریں، شاہانہ رہن سہن میں ہونے والے عوام کے پیسے کے خرچے کم سے کم کریں گے اور ہر جگہ ان خرچوں کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے اور لوگوں کو یہ احساس دلوانا ہے اور میں آپ کو بھی یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری یہ بڑی بری عادت ہے اور ہمیں یہ بری عادت پڑ گئی ہے کہ ہم باہر کے ملکوں کی امداد اور قرضوں پہ گزارا کرتے رہیں اور ہمیں کوئی برا بھی نہیں لگتا کہ ہم لوگوں کے پاس قرضہ لینے چلے جاتے ہیں اور ہمارے جو سربراہ ہوتے ہیں وہ کبھی کسی ملک سے پیسے مانگتا ہے کبھی کسی سے پیسے مانگتا ہے، کبھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرضے لیتے ہیں، دیکھیں کبھی کوئی ملک ترقی ایسے نہیں کرتا، کوئی بھی ملک جو کھڑا ہوتا ہے وہ اپنے ہی پیروں پہ کھڑا ہوتا ہے، قرضہ تو ہوتا ہے صرف چھوٹے سے وقت کے لیے ایک مشکل وقت آتا ہے مثلا جرمنی اور جاپان جنگ عظیم کے بعد تباہ ہو گئے اور انہوں نے قرضہ لیا ایک مخصوص پیریڈ کے لیے اور اس کے بعد وہ قوم اپنے پیروں پہ کھڑی ہو گئی، ہمیں بھی اپنے پیروں پہ کھڑے ہونا ہے، جیسے ہم اب تک گزارا کرتے آئے ہیں ویسے اب ہم گزارا نہیں کر سکتے اور ویسے بھی اگلے قرضہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں اور جو بھی آپ کو قرضہ دیاتا ہے وہ آپ کی آزادی لے جاتا ہے، آپ کی عزت چلی جاتی ہے، آپ کو کتنا برا لگے گا، پتہ نہیں آپ کو برا لگے یا نہ لیکن مجھے کتنا برا لگے گا کہ میں ملک سے باہر جا کے لوگوں سے قرضہ مانگوں، میں کبھی کسی ملک میں جا رہا ہوں پیسے مانگنے اور کبھی کسی ملک میں جا رہا ہوں، میں اپنے ملک میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے قرضہ مانگنے پاکستان کی سڑکوں پہ نکلا ہوا ہوں لیکن میں نے پاکستانیوں سے پیسہ مانگا ہے لیکن اگر مجھے کوئی کہے کہ کسی باہر والے ملک سے جا کر پیسہ مانگو تو اس کی مجھے بھی شرم آئے گی اور آپ کے لیے کتنا برا ہو گا کہ جب آپ کے ملک کا ایک سربراہ پیسے مانگتا ہے تو سارے ملک کی عزت چلی جاتی ہے، دیکھیں دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت کرتا ہے، جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی جس میں قومی غیرت نہیں ہوتی دنیا بھی اس کی عزت نہیں کرتی، ہمیں برا لگتا ہے، ہم کئی دفعہ ملک سے باہر گئے ہیں، پاکستانیوں کو وہ علیحدہ ایک لائن میں کھڑے کر دیتے ہیں اور دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ اپنا پاسپورٹ لیکر جا رہے ہوتے ہیں، کتنی شرم کی بات ہے، یہ ہمارا قصور ہے ، یہ دنیا کا قصور نہیں ہے، ہم جو ہاتھ پھیلا کے دنیا کے سامنے پھر رہے ہوتے ہیں۔

تو میں انشااللہ میرا یہ ارادہ ہے کہ میں نے اس قوم کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنا ہے، ہم نے کبھی کسی کے سامنے یہ ہاتھ نہیں پھیلانے، ہم نے ایک عظیم قوم بننا ہے اور عظیم قوم بنتی ہے قربانیاں دے کے، وہ بھکاریوں کی طرح بھیک مانگ کے کوئی قوم عظیم قوم نہیں بنتی، ہم نے اپنے پیر پہ کھڑا ہونا اور وہ کیسے وہ میں اب آپ کو بتاتا ہوں، پیسہ اکٹھا کرنا ہے ہم نے، اس 20 کروڑ عوام کے اندر صرف 8 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں، 20 کروڑ عوام میں اگر صرف 8 لاکھ لوگ ٹیکس دیں گے تو وہ ملک زیادہ دیر نہیں چلے گا، یہاں پیسے والے لوگ ہیں، بڑے بڑے گھروں میں لوگ رہتے ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں لوگ چلاتے ہیں لیکن ٹیکس ہی نہیں دیتے جو انشااللہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں نے ایف بی آر کو ٹھیک کرنا ہے، ہماری پہلی کوشش ہو گی کہ جو ایف بی آر ہے جس میں کرپشن اتنی زیادہ ہے، لوگوں کو اعتماد ہی نہیں ہے اور وہ ٹیکس ہی نہیں دیتے تو ہم ایف بی آر کو ٹھیک کریں گے، اس کے بعد میں عوام کو یہ اعتماد دوں گا کہ آپ کے ٹیکس کی میں حفاظت کروں گا اور آپ کا ٹیکس آپ پہ ہی خرچ کروں گا، پوری یہ جو سادگی کی ہم مہم چلائیں گے یہ مسلسل چلتی جائے گی اور ہم ہر روز یہ آپ کو بتائیں گے کہ ہم نے عوام کا کتنا پیسہ بچایا ہے لیکن ایک طرف جب ہم پیسہ بچا رہے ہیں تو آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ آپ بھی ٹیکس دیں، اس کو جہاد سمجھیں آپ کہ آپ نے اپنے ملک کی غیرت کے لیے ٹیکس دینا ہے، آپ اگر ٹیکس بچاتے ہیں تو آپ اپنے ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں، آپ کی جب حیثیت ٹیکس دینے کی اور آپ ٹیکس بچاتے ہیں تو یاد رکھیں یہ جو غریب لوگ ہیں بچارے جن کو نہ ہم پڑھا سکتے ہیں، نہ پانی دے سکتے ہیں، بچارے کن حالات میں گندے نالے کے ساتھ بچے وہاں سے چیزیں اٹھا اٹھا کے کھا رہے ہوتے ہیں یعنی ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں تو ہم نے یہ سوچنا ہے کہ ہم یہ جو ٹیکس دیں گے اس کو یہ سمجھیں کہ ہم اللہ کے لیے دے رہے ہیں جس طرح ہم زکوٰة دیتے ہیں، یہ ہم نے دینا ہے اپنے نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے کے لیے اور انشااللہ میں آپ کو یہ ثابت کروں گا کہ ہم نے اگر یہ اصلاحات کر دیں تو، ہم نے آپ کو یہ اعتماد دلا دیا کہ آپ کا ٹیکس آپ کے اوپر خرچ ہو گا تو انشااللہ کبھی بھی ہمارا خسارہ نہیں ہو گا اور یہ جو ہماے مسئلے ہی یہی ہیں کہ ہمارا خرچے زیادہ ہیں اور ہماری آمدن کم ہے انشااللہ ہم اپنی آمدنی پوری کریں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک ٹاسک فورس بنا رہے ہیں ، ہم نے یہ پیسہ واپس لانا ہے پاکستان، جن لوگوں نے منی لانڈرنگ کی ہے، اور امریکی کی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ ہے کہ اس میں ہر سال 10 ارب کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے یعنی ایک ہزار ارب اس ملک سے چوری ہو کر باہر جا تا ہے۔ یہ ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے، یہ اصل اس ملک کے مجرم،اور اس کے ساتھ میں آپ کو ایک اور چیز کہنا چاہتا ہوں آپ کبھی کسی پارٹی کو ووٹ نہ دیں جس کے لیڈر کا سارا پیسہ اس ملک میں نہیں ہے، جس کا جینا مرنا اس ملک میں نہیں ہے، وہ کیسا لیڈر ہے جو اپنا سارا پیسہ اور بزنس باہر رکھ رہا ہے اور لیڈری پاکستان میں کر رہا ہے، یہ آپ کی اپنی غلطی ہے اگر قوم ایسا کرے گی ، جو اپنا پیسہ نکال کر باہر لے کر جارہا ہے، اور جب باہر پیسہ پڑا ہوتا تو وہ محتاج ہو جاتا ہے، وہ باہر سے کنٹرول ہو سکتا ہے، اس لئے اس کے ساتھ یہ آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن پارٹیز کے لیڈرز کے پیسے باہر پڑے ہیں ان کو آپ نے ووٹ نہیں دینا۔

اس کے بعد ہم نے اپنی ایکسپورٹ بڑھانی ہے، یہ سب زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ایکسپورٹ بڑھائیں۔ایکسپورٹ تب بڑھیں گی جب ہماری حکومت پوری مدد کرے گی انڈسٹری کی، اور ہم نے ان شاء اللہ پوری بزنس ایڈوائزری کونسل بنائی ہے، ان کے ساتھ ہم میٹنگ کریں گے، ہم ہر رکاوٹ ان کی ختم کرنے کی کوشش کریں گے،جو بھی رکاوٹ ہے ان کی ایکسپورٹ کی راہ میں، اس ملک میں سرمایہ کاری لے کر آنی ہے، سرمایہ کاروں کیلئے بھی ان شاء ون ونڈو بنانے کی کوشش کریں گے، پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں ایک آفس ہوگا، جو لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے ، جو مشکلات ان کیلئے وہ ہم دور کریں، تاکہ یہاں سرمایہ کاری بڑھے،پھر ہم نے اپنی سمال او رمیڈیم انڈسٹری کو دیکھیں، ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے جو چھوٹی انڈسٹری ہوتی ہے، جو چھوٹا بزنس میں ہوتا ہے جو چھوٹا سرمایہ کار ہوتا، ان کے لئے اس میں بہت بڑی رکاوٹیں ہیں، ان کیلئے اتنی رکاوٹیں ہیں ، ان کے لئے ان شاء اللہ آسانیاں پیدا کریں گے تاکہ وہ پیسہ انوسٹ کریں اور روزگار لوگوں کو ملے، اس کے بعد ہماری جو سفارت خانے ہیں باہر ان کو میں کل سے پیغام پہنچائوں گا، جو ہمارے پاکستانی باہر کام کررہے ہیں، جو اتنا بڑا ملک کا اثاثہ ہے، جو ہمیں وہاں سے پیسہ بھیجتے ہیں، جن پیسوں پر ملک چلتا ہے، تقریباً 20 ارب ڈالرترسیلات زر جو آتاہے، ہم نے ان شا ء اللہ ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے، ان کیلئے ہمارے سفارتخانوں کا کام ہوگا کہ ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے، ہمارے لیبر ہے وہاں، پاکستانی وہاں جیلوں میں پڑے ہیں، میں سفارتخانوں سے کہوں گا کہ وہ مجھے بتائیں کہ وہ کیوں پڑے ہوئے ہیں، ان کو فوری طور پر دیکھا جائے، کیا ان کا جرم کیا ہے، ان کی مدد کریں جا کر، ان کو یہ بتائیں کہ وہ لاوارث نہیں ہیں۔

ہم پاکستانی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، انہوں نے کوئی جرم کوئی ہے یا وہ کوئی بے قسور ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد کئی بچارے لوگوں کا پتہ چلتا ہے کہ انہیں ایسے ہی پکڑ لیتے ہیں تو انشااللہ اپنی ایمبیسیز سے ان کی مدد کریں گے کیونکہ یہ ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں، اور پھر میں آ گیا اوورسیز پاکستانیز پہ، میں آج خاص طور پر اوورسیز پاکستانیز سے بات کرنا چاہتا ہوں، ہم یہاں آپ کے لئے انویسٹمنٹ کے پورے مواقع پیدا کریں گے، ہم یہ چاہیں گے کہ آپ اپنا پیسہ پاکستان لے کر آئیں، پاکستان کے بینکوں میں رکھوائیں۔

اس وقت ہمیں ڈالرز کی بہت کمی ہے، میں نے شروع میں آپ کو بتا دیا کہ ہمارا خسارا اتنا بڑھ گیا ہے کہ ٹریڈ گیپ اور ہماری امپورٹ اور ایکسپورٹ میں اتنا بڑا گیپ آ گیا ہے کہ ہمیں اس وقت ڈالرز کی بہت اشد ضرورت ہے، میں یہ چاہوں گا کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے بینکوں میں پسہ رکھوائیں اور ترسیلات زر بھی جب اپنے رشتہ داروں کو بھیجیں تو بینکوں کے ذریعے بھیجیں تاکہ ملک کو ڈالرز ملیں، یہ جو ہمارا مشکل وقت ہے اس مشکل وقت کو گزارنے کے لئے میں اپنے اوورسیز پاکستانیوں کو خاص طور پر کہوں گا کہ آپ اس ملک میں اس وقت ہماری مدد کریں اور ہمیں اس وقت آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد کرپشن! یہ تیسرا بڑا ایشو ہے۔ کرپشن کے اوپر ہم نے اب پورا زور لگانا ہے، کوئی بھی ملک جس میں اتنی زیادہ کرپشن ہو وہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، کرپشن دو کام کرتی ہے، ایک تو جو پیسہ عوام پر خرچ ہونا ہوتا ہے وہ لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے دوسرا کرپشن کرتے وقت جب صاحب اقتدار لوگ کرپشن کرتے ہیں تو ملک کے ادارے تباہ کر کے وہ کرپشن کرتے ہیں، نہیں تو وہ کرپشن نہیں کر سکتے اور پکڑے جائیں گے، اس لئے کرپشن کے اوپر ہم انشاء اللہ پورا زور لگائیں گے اور ایک تو نیب ہے، نیب کے چیئرمین سے میں بہت جلد میٹنگ کروں گا اور انہیں کسی بھی قسم کی اگر کوئی مدد چاہیے، مین پاورز چاہیے یا کوئی فنڈز چاہئیں، ہم ان کی پوری مدد کریں گے اور انہیں پاور فل بنانے کے لئے ہر اہم اور موثر اقدام اٹھائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک قانون پاس کرنے لگے ہیں جو ہم نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی کیا تھا، جسے وصل بلور ایکٹ کہتے ہیں، کوئی بھی آدمی خاص طور پر گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ جو بھی کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے اور جو بھی پیسہ اس نشاندہی سے وصول ہوگا، اس کا 20 یا 25 فیصد اس نشاندہی کرنے والے شخص کو جائے گا، یعنی کہ وہ حلال طریقے سے پیسہ کما سکتے ہیں اگر وہ کرپٹ عناصر کی نشاندہی کریں اور ملک کا پیسہ بچائیں۔

وصل بلور ایکٹ جو خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاس ہے اسے بھی ہم پاس کریں گے اور ایس ای سی پی جو بہت اہم ہے ہم اس ادارے کو بھی ٹھیک کریں گے کیونکہ پہلے یہ کرپٹ لوگوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور پھر ایف آئی اے۔ وزارت داخلہ میں اپنے پاس رکھ رہا ہوں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ایف آئی اے کے ذریعے ہم نے جو منی لانڈرنگ ہوتی ہے اس ملک سے، کرپشن ہے اس کے لئے میں خود اس پر پوری نظر رکھوں گا کیونکہ جب تک یہ مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں اور اس ملک کا پیسہ چوری کر کر کے باہر لے جا رہے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ یہ جو ہمارے ہیومن ڈویلپمنٹ ہیں، ہمارے انسان ہیں جنہیں ہم نے اوپر اٹھانا ہے انہیں نہیں اٹھا سکیں گے۔

اس کے اوپر میں خود نظر رکھوں گا، میں آپ کو بتا دوں کہ جب ہم کرپٹ لوگوں کے اوپر ہاتھ ڈالیں گے تو آپ سب لوگ تیار ہو جائیں یہ شور مچائیں گے۔ یہ کرپٹ لوگ جو ابھی تک پیسہ بنا رہے تھے یہ ہر جگہ بیٹھے ہوئے ہیں، ڈیپارٹمنٹس میں مافیا بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایف بی آر کے اندر بھی مافیا بیٹھے ہوئے ہیں، ہر جگہ ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو کرپٹ نظام سے پیسہ بنا رہے تھے، جب ان پر ہاتھ ڈلے گا تو یہ ذہن میں ڈال لیں کہ یہ شور ضرور مچائیں گے اور یہ شور ہر قسم کا مچائیں گے، سڑکوں پہ بھی آئیں گے، جمہوریت بھی خطرے میں آ جائے گی کیونکہ جب ان کی کرپشن پر ہاتھ ڈلے گا لیکن آپ نے میرے ساتھ کھڑے رہنا ہے کیونکہ یا یہ ملک بچے گا یا یہ کرپٹ لوگ بچیں گے تو اس لئے تیار ہو جائیں اس کے لئے، میں پھر سے آپ سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے میری ٹریننگ کرائی ہے مقابلہ کرنے کے لئے تو انشاء اللہ میں ان کا پوری طرح مقابلہ کروں گا۔

پھر ہم نے سب سے زیادہ چیز عام لوگوں کے لئے انصاف کا نظام بنانا ہے، میں نے چیف جسٹس کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے، ہم نے عدلیہ عدالتوں میں جو لوگ سالوں سالوں کیس چلتے ہیں نیچے مسئلے ہیں کچہریوں میں مسئلے ہیں لوگوں کو، عام آدمی کے مسائل ہیں، زمینوں کے کیسز ہیں، جو کئی سال چلتے ہیں، لوگ بیچارے اگلے جہان چلے جاتے ہیں لیکن زمین کے کیس حل نہیں ہوتے، ہم نے چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی ہے جس طرح ہم نے پختونخوا میں کیا تھا، وہاں بھی ہم نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کر ایک سول پروسیجر کورٹ میں ترمیم کی تھی اور ایک سال کے اندر اندر سارے سول کیسز کا فیصلہ کیا۔

اس میں ہمارے ساتھ عدلیہ بھی تھی جنہوں نے ہمارے ساتھ پوری طرح تعاون کیا اور اب ہم یہ انشاء اللہ نیشنل لیول پر کریں گے، کیسز کو ایک سال سے زیادہ اوپر نہیں جانا چاہیے۔ ہم ساروں سے مل کر عوام کے لئے عوام سے یہ ظلم نہیں کر سکتے کہ جرم ہوتا ہے اور سزا نہیں ملتی، تو انشاء اللہ ایک ایسا نظام لائیں گے کہ ایک سال کے اندر کیس حل ہو گا، میں چیف جسٹس صاحب سے آج خاص درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ کئی بیوائیں ہیں جنہوں نے مجھے اپروچ کیا ہے جن بیچاریوں کی زمینوں پر قبضے ہوئے ہوئے ہیں، زمینوں کے کیسز ہیں، وہ بیچاری سالوں سے رل رہی ہیں لیکن ان کے کیسز حل نہیں ہوئے، میں چیف جسٹس سے درخواست کروں گا کہ کم از کم جو بیوہ ہیں ان کے کیسز حل کریں جنہیں بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

میں آپ کو ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب میں نے سیاست شروع کی تو مجھے ایک خاتون نے اپنے خون سے خط لکھا اور اس نے کہا کہ میں اور میری بیٹی پولیس سٹیشن جاتے ہیں، میرے خاوند کو کسی نے قتل کر دیا، ہم اس قتل کے کیس کی ایف آئی آر کے لئے تھانے جاتے ہیں وہاں وہ پولیس والے جان بوجھ کر ہمارا کیس ڈیلے کرتے ہیں اور ہمیں بار بار تھانے جانا پڑتا ہے جہاں وہ ہمیں بری نظر سے دیکھتے ہیں، تو وہ کہتی ہے کہ میری آج یہ حالت ہے کہ میری بیٹی اور میں کس کے پاس جائیں، تو میں انشاء اللہ آج سب کے سامنے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ یہ میرا عزم ہے کہ یہ جو ہمارا کمزور طبقہ ہے جن کے ساتھ ظلم ہوتا ہے یہ جو ہماری بیوائیں ہیں یا یہ جو ہمارا غریب طبقہ ہے جیلوں میں، جب میں جیل میں تھا ہر طرف غریب ہی نظر آتے تھے، آج میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جیلوں میں بھی ہم وکیلوں کے گروپس بھیجیں گے کہ وہ جا کہ جیلوں میں پڑے لوگوں کے مسئلے مسائل دیکھیں۔

وہاں کچھ لوگ ایسے بچارے پڑے ہیں کہ وہ فیس نہیں دے سکتے اور اس وجہ سے وہ وہاں پڑے ہوئے ہیں، اور بہت ساروں کا صرف یہی جرم ہے غربت۔ ہم نے وہ بھی کرنا ہے اور پولیس کا نظام بھی ٹھیک کرنا ہے، پہلے مجھے خیبرپختونخوا کی بہت خوشی ہے کہ کے پی کے میں پولیس میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے، میں بہت شکرگزار ہوں کہ جس طرح کے پی کے کی پولیس میں ایک ایسی تبدیلی لے کر آئے تھے اور ہمارے الیکشن میں جیتنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ وہاں پولیس ٹھیک ہو گئی اور لوگوں کو پولیس پر اعتماد آ گیا اور وہاں جرم نیچے آ گیا۔

وہ صرف اس لئے تھا کہ ہم نے وہاں پولیس کو پروفیشنل کیا، ایک پولیس کے جو آئی جی تھے جنہوں نے یہ ساری اصلاحات کیں ان کا نام تھا ناصر درانی۔ میں نے ناصر درانی کو یہ کہا ہے اور وہ مان گئے ہیں کہ اب پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کے لئے ہم انہیں ایڈوائزری دے رہے ہیں کیبنٹ کے اندر۔ اور ہم انہیں یہ رول دے رہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے کے پی کے پولیس کو ٹھیک کیا وہ پنجاب کی پولیس کو بھی کریں۔

کیونکہ یہ صوبائی معاملہ ہے اس لئے ہم براہ راست مداخلت نہیں کر سکتے اور سندھ میں اور ہم پوری کوشش کریں گے کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر سندھ پولیس کو بھی ٹھیک کیا جائے اور پولیس کا ایک جو افسوسناک مسئلہ ہے اور یہ بات پھیلتی جا رہی ہے کہ بچوں کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے، قصورکا ایک کیس سامنے آ گیا اور وہ صرف اس لئے کہ وہ سامنے آ گیا، اور اتنے زیادہ کیسز ہیں جو آپ سنتے ہیں، وہ ماں باپ شرماتے ہیں اور بیچارے ڈرتے ہیں، اور کسی سے بات تک نہیں کرتے اور ہم نے پولیس کے ساتھ مل کر یہ بچوں کے ساتھ جو زیادتی ہوتی ہے اس کے خلاف بڑا سخت ایکشن لینا ہے، انشاء اللہ ہیومن رائٹس کی جو ہم نے منسٹری بنائی ہے اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہوگا کہ چائلڈ ابیوز کو ختم کرنے کے لئے ہم پورا زور لگائیں۔

تعلیم! تعلیم کے لئے سب سے زیادہ زور سرکاری سکولوں پر لگانا ہے، گورنمنٹ سکولوں کے اندر جب تک تعلیم کا نظام ٹھیک نہیں ہو گا ہم اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتے، ہمارے بچوں کی اکثریت سرکاری سکولوں میں جاتی ہے، سرکاری سکولوں کا برا حال ہے، کیونکہ سرکاری سکولوں کا برا ہے، تنخواہ دار لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجتے ہیں، پرائیویٹ سکولوں میں بعض اوقات فیسز بڑھ جاتی ہیں، کتابوں کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ یہ جو ہمارا تنخواہ دار طبقہ ہے وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے کے لئے کس طرح قربانیاں دیتا ہے، مجھے پتہ ہے کئی بیچارے دو دو نوکریاں کر رہے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ جائیں۔

لوگ اپنی قربانی دے لیتے ہیں لیکن اپنے بچوں کی قربانی نہیں دینا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ کم از کم ان کے بچوں کو صحیح تعلیم ملے، اس لئے ہم نے سب سے زیادہ زور سرکاری سکولوں کے سٹینڈرڈ کو ٹھیک کرنے پر لگانا ہے، پختونخوا میں کئی سرکاری سکولوں کا سٹینڈرڈ اتنا بہتر ہوا کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچہ پرائیویٹ سکولوں سے سرکاری سکولوں میں آیا، اب ہم نے اس کو اور لیول پر لے کر جانا ہے اور گورنمنٹ سکولوں کے لیول کو مزید بہتر کرنا ہے اس کے باوجود جو ہمارے اتنے بچے سکول سے باہر ہیں، ہم ایک اور چیز سوچ رہے ہیں کہ ڈبل شفٹ کریں اور پرائیویٹ سکولوں کو دعوت دیں کہ جب سرکاری سکولوں کا ٹائم ختم ہو تو جو پرائیویٹ سکول والا چاہتا ہے اس کو کرایہ پر لے کر وہاں اپنی کلاسز ہولڈ کر سکتے ہیں لیکن ایمرجنسی ہے کہ ہم نے اپنے سوا دو کروڑ بچوں کو جو سکولوں سے باہر پڑے ہیں، یہ ظلم نہیں ہونے دینا اپنی قوم سے اور اپنے بچوں کو پڑھانا ہے ،انہیں سکول لے کر آنا ہے۔

ہم نے اپنے مدرسہ کے بچوں کو بھی نہیں بھولنا، میرا ایک جو اور بھی وژن ہے وہ یہ ہے کہ مدرسے سے نکلنے والے بچوں کو بھی انجینئر بننا چاہیے، ڈاکٹر بننا چاہیے، بڑے بڑے کام کرنے چاہئیں، جنرل بننا چاہیے، ججز بننا چاہیے، ہم کیوں انہیں یہ موقع نہیں دیتے، ہم نے انشاء اللہ مدرسہ کا جو ایجوکیشن سسٹم ہے جس میں ہمارے 24 لاکھ بچے پڑھتے ہیں اس کے سٹینڈرڈ کو ریز کریں اور انہیں موقع دیں کہ ان کے ہاں سے بھی بچے پڑھ کر آگے بڑھ سکیں۔

پھر ہسپتالوں کے لئے ہم نے ہسپتالوں کے لئے ٹاسک فورس بنائی ہے، ہم نے جو پختونخوا کے اندر کیا وہ بڑا مشکل کام ہے، میں آپ کو ایک چیز سمجھا دوں، شوکت خانم ہسپتال بنانا، اس میں نظام بنانا اس کے اندر نیا سسٹم لے کر آنا، میرٹ کا نظام بنانا، سزا اور جزا کا نظام بنانا آسان کام ہے لیکن گورنمنٹ ہسپتالوں میں جن میں ایک پرانا اور فرسودہ نظام موجود ہے اس کو ٹھیک کرنا بہت مشکل کام ہے، ہم نے بڑی کوشش کی، بڑا زور لگا کر پختونخوا کے اند رآخری سال میں پانچ سال زور لگایا اور آخری سال میں ہسپتالوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ابھی بھی صحیح طرح سے نہیں آئی لیکن جب تک ہم سرکاری ہسپتالوں کا مینجمنٹ سسٹم نہیں بدلیں گے وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا مقابلہ نہیں کریں گے۔

پھر ہو گا کیا کہ امیر آدمی پرائیویٹ ہسپتال میں اور غریب آدمی سرکاری ہسپتالوں میں، ہم نے سرکاری ہسپتالوں کو ٹھیک کرنا ہے اور اس کے لئے میں نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے اور جن دو صوبوں میں ہماری حکومت ہے وہاں تو ہم پورا زور لگائیں گے اور سندھ میں ہم پوری کوشش کریں گے کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر سرکاری ہسپتالوں کے سٹینڈرڈ کو ٹھیک کریں۔

سب سے زیادہ ضروری ہے کہ پورے پاکستان کے اندر ہیلتھ کارڈ لے کر آئیں گے، پختونخوا کے لوگوں کے لئے جو ہیلتھ کارڈ تھا، ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی جو انشورنس تھی کہ غریب گھرانے میں اگر کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو ساڑھے پانچ لاکھ روپے تک وہ خرچ کر سکتا ہے، انشاء اللہ سارے پاکستان کے اندر یہ ہیلتھ انشورنس لے کر آئیں گے تاکہ غریب گھرانے جو پہلے ہی مشکل میں ہیں، کھانا پینا مشکل ہے اور اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اس کے پاس اگر ہیلتھ کارڈ ہو تو وہ کسی بھی ہسپتال میں جا کر اپنا علاج کروا سکے۔

پھر جو مسئلہ ہے پانی کا وہ بہت بڑا مسئلہ ہے جو کافی دیر سے چلا آ رہا ہے لیکن کے اس کے لئے کچھ ہوا نہیں اگر پہلے سے اس کی تیاری ہوتی تو یہ مسئلہ نہ ہوتا، اب ہمارے اوپر اس کی ایمرجنسی ہے، سب سے پہلے تو ہمارے شہروں کے اندر مشکل پڑ گئی ہے، کراچی میں پانی نہیں ہے، سب جانتے ہیں کہ ٹینکر مافیا آ گیا ہے اور لوگ پانی دینے پر بھی پیسہ بنا رہے ہیں، کیا حالات ہیں کراچی کے، کوئٹہ کے اندر وہاں پانی نہیں ہے، اسلام آباد میں بھی کئی علاقوں میں پانی نہیں ہے اور یہ جو مسئلہ ہے پانی کا یہ آج کا نہیں ہے بلکہ کئی دیر سے چلتا آ رہا ہے لیکن کسی نے اس بارے میں سوچا نہیں۔

پانی کے مسئلے پر ہم ایک پوری منسٹری بنا رہے ہیں اور پورا زور لگا رہے ہیں کہ پہلے شہروں میں کیسے پانی کو پہنچانا ہے اور کسانوں کے لئے ہم نے پوری کوشش کرنی ہے کہ انہیں نئے طریقے بتائے جائیں کہ وہ کیسے پانی بچا سکتے ہیں۔ دنیا میں بہت زبردست طریقے ہو گئے ہیں پانی بچانے کے، سنٹرنکل سسٹم وغیرہ وغیرہ۔ اس معاملے میں ہم کسانوں کی مدد کریں گے، نہروں کی لائننگ کریں گے، اس سے بھی پانی بچایا جا سکتا ہے، اس وقت ایک ڈیم بنانا تو ناگزیر ہو گیا ہے، بھاشا ڈیم ہمیں ہر قیمت پر بنانا پڑے گا کیونکہ اگر ہم نے نہ بنایا تو آگے جا کر ہمیں بہت مسئلے آئیں گے، ڈیم کیوں نہیں بنتا کیونکہ ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے اور انشاء اللہ ڈیم کے لئے جس طرح چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے اور زبردست انیشی ایٹو لیا ہے ساری قوم مل کر بیرون ملک پاکستانیوں کو ساتھ ملا کر ہم پوری کوشش کریں گے کہ بھاشا ڈیم بنانے کے لئے پیسہ اکٹھا کریں۔

پھر نویں چیز کسان! پاکستان میں اگر ہم نے سب سے تیزی سے آگے بڑھنا ہے تو ہم کسانوں کی مدد کریں، کسانوں کے پاس جب تک پیسہ نہیں آئے گا وہ اپنی زمین پر نہیں لگائیں گے، اگر وہ زمین پر نہیں لگائیں گے تو پیداوار نہیں بڑھے گی اور حکومت نے مدد کرنی ہے تاکہ کسان پیسہ بنائے اور کسان پیسہ تب بنائے گا جب ہم اس کے خرچے کم کریں گے اور پیداوار کی قیمت بڑھائیں گے اور ایک ایکڑ سے زیادہ پیداوار کے لئے اس کی مدد کریں گے، اب اس کے لئے سب سے جو زیادہ ضروری چیز ہے وہ ایگریکلچرل ریسرچ۔

ہمارے پاس فیصل آباد یونیورسٹی زبردست ہوتی تھی، جس طرح دوسرے ادارے تباہ ہوئے، وہ بھی پیچھے رہ گئی۔ اور سب سے زیادہ ضروری ہے ایگریکلچر ریسرچ، ہم نے کسانوں کیلئے ریسرچ کرنی ہے، یہ سوچیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بیچارے کسان بھارت سے سبزیوں کے بیج لیتے ہیں تاکہ ان کی پیداوار بڑھ جائے، ہم کیوں نہیں کر سکتے ہیں، ہم انشاء اللہ کسانوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لئے پورا زور لگائیں گے لیکن ریسرچ سب سے زیادہ ضروری ہے، پانی کا بہتر استعمال وہ دوسری چیز ہے کہ وہ کیسے اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔

اس کے بعد سول سروسز ریفارمز بہت زیادہ ضروری ہیں یعنی حکومت پالیسی بنائے گی اور اگر اس حکومتی پالیسی کو سول سروسز ایگزیکیوٹ نہیں کرتی تو ہم جو مرضی پالیسی بناتے جائیں، 60ء کی دہائی میں پاکستان کی سول سروسز سارے ایشیاء میں بہتر سول سروسز مانی جاتی تھیں، ہمارے بڑے بڑے پراجیکٹ ہماری اپنی سول سروسز نے کئے تھے، ہماری سول سروسز کی دنیا بھر میں اچھی ریپوٹیشن تھی، ہماری بدقسمتی کہ ہم نے سیاسی مداخلت سے میرٹ کو ختم کر کے پروفیشنل ازم ختم کر کے آج ہماری سول سروسز اس معیار کی نہیں ہیں، ہم نے اپنی سول سروسز کو اٹھانا ہے اس کے لئے ہم ریفارمز کر رہے ہیں، ڈاکٹر عشرت حسین نے کتاب یھی لکھی ہے اور انکی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بن رہی ہے اور سول سروسز ریفارمز پر ہم پورا کام کر رہے ہیں کہ ہم کیسے میرٹ واپس لا سکتے ہیں اور اس میں سیاسی مداخلت ختم کر سکتے ہیں، میں سول سرونٹس کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی حکومت میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں آنے دیں گے، آپ ڈلیور کریں ہم آپ کی سپورٹ کریں گے، آپ کی ایفیلی ایشن جس مرضی جماعت سے ہے مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا، مجھے صرف یہ چاہیے کہ آپ میرے ملک کے لئے کام کریں، ہم آپ کو پوری عزت دیں گے، جس طرح پچھلے دور میں سول سرونٹس کو نوکروں کی طرح رکھا گیا، ہم ایسا نہیں کریں گے، ہم آپ کو عزت بھی دیں گے، کوئی مداخلت بھی نہیں کریں گے اور اب آپ کی پوری مدد کریں گے، آپ کے ٹنیور کی پروٹیکشن بھی دیں گے، یہ نہیں ہوگا کہ ہر دوسرے دن ٹرانسفر، اس میں بھی آپ کی مدد کریں گے، لیکن میں جو چاہتا ہوں کہ ایک عام آدمی کہ ہمارا عام آدمی جب سرکاری دفاتر میں آئے تو آپ نے اس کو عزت دینی ہے، اس کو انسان سمجھنا ہے، اس کو وی آئی پی بنانا ہے، یہ اللہ کا کام ہے، بیچارا عام آدمی �
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات