Live Updates

خارجہ پالیسی میں ہماری ترجیحات کا محور پاکستان اور اس کے مفادات ہوں گے، عوام کی بہتری کے لئے اقتصادی سفارتکاری کو بروئے کار لایا جائے گا، خارجہ امور پر قومی اتفاق رائے کو ترجیح دی جائے گی، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان میں امن کی ضمانت ہے، بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیرینہ مسائل کے حل کے لئے گفت و شنید کے علاوہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں، امریکا کی ترجیحات و تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں بات کریں گے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے خوشدلی اور عزت سے پیش آیا جائے

وزیر اعظم عمران خان کو بھارتی وزیراعظم کے مبارکباد کے خط کا خیرمقدم کرتے ہیں، نان کیریئر سفارتکار اپنا کام جاری رکھیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پریس کانفرنس

پیر 20 اگست 2018 15:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اگست2018ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی میں ہماری ترجیحات کا محور پاکستان اور اس کے مفادات ہوں گے، عوام کی بہتری کے لئے اقتصادی سفارتکاری کو بروئے کار لایا جائے گا، خارجہ امور پر قومی اتفاق رائے کو ترجیح دی جائے گی، اس سلسلے میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کو بھی مشاورت کی دعوت دی جائے گی، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان میں امن کی ضمانت ہے، بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیرینہ مسائل موجود ہیں تاہم ان کے حل کے لئے گفت و شنید کے علاوہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں، امریکا کی ترجیحات و تحفظات کا اندازہ ہے جنہیں سامنے رکھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں بات کریں گے، ملکوں کی عزت اور وقار برابر ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ پیر کو یہاں وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہماری خارجہ پالیسی کا آغاز بھی پاکستان اور اختتام بھی پاکستان ہے، ہماری ترجیحات کا محور پاکستان اور اس کے مفادات ہوں گے، ہمارے لئے پاکستان کے مفادات سب سے بالا اور افضل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں درستگی لائی جائے گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی ترجیحات اور سوچ کا محور عام شہری ہیں، ان کی زندگیوں میں بہتری لانا موجودہ حکومت کی ترجیح ہے۔ اس سلسلے میں اقتصادی سفارتکاری کو بھی بروئے کار لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے چیلنجز بے پناہ ہیں اور ہم ان سے بخوبی آگاہ ہیں، ان چیلنجز پر قابو پانے کے لئے ہماری حکومت کا پختہ ارادہ ہے۔ کچھ قوتیں پاکستان کو تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ساڑھے چار سال تک پاکستان کا وزیر خارجہ نہیں تھا جو ملک کا چہرہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خارجہ امور پر قومی اتفاق رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ اس سلسلے میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی، پاکستان پیپلزپارٹی سے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، مسلم لیگ (ن) سے سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف اور ایم ایم اے کے پارلیمانی لیڈر یا کسی نامزد رہنما کو دعوت دی جائے گی تاکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کی آراء حاصل کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے، ہمیں عوام کی امنگوں کے مطابق آگے بڑھنا ہے اور حزب اختلاف عوامی امنگوں کا حصہ ہے۔ وزیر خارجہ نے دو اہم ممالک جن کے ساتھ ہمارے خارجہ امور بڑی اہمیت رکھتے ہیں ان کے ساتھ مستقبل قریب میں بات چیت کو آگے بڑھایا جائے گا، جہاں کہیں خلاء موجود ہے اسے دور کیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کابینہ اجلاس کے بعد افغانستان کے وزیر خارجہ سے رابطہ کر کے انہیں اپنے دورہ کابل کے متعلق ارادے سے آگاہ کیا جائے گا، ہم افغانستان کے لوگوں کے لئے ٹھوس پیغام لے کر جانا چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان میں امن کی ضمانت ہے، ہم ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور دوطرفہ معاملات کو طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہمیں مل کر ایک نئے سفر کا آغاز کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ بھارتی وزیر خارجہ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم دو ہمسائے ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دو ایٹمی قوتیں بھی ہیں، ہمارے دیرینہ مسائل موجود ہیں جن سے ہم بخوبی آگاہ ہیں، ہم کسی ایڈونچرازم کے متحمل نہیں ہو سکتے، ہمارے پاس گفت و شنید کے علاوہ آگے بڑھنے کا کوئی حل نہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک حقیقت ہے اور دونوں ملک اسے تسلیم کرتے ہیں، اس حوالے سے بلاتعطل مذاکرات کرنا ہی دانشمندانہ راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی مشنز کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ حاکم نہیں بلکہ قوم کے خادم ہیں، یہی نئے پاکستان کا تقاضا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم نے واضح پیغام دیا ہے کہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے خوشدلی اور عزت سے پیش آیا جائے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے سابق سفارتکاروں، تعلیمی ماہرین اور تھنک ٹینکس سے بھی بہتری کے لئے رائے لی جائے گی تاکہ پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کا کل خط آیا ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو مبارکباد دی اور بات چیت کا پیغام دیا ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس موقع پر مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مفاد سب کو مقدم ہے تاہم ترجیحات میں فرق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی دوروں کے بارے میں وزیراعظم سے رہنمائی لوں گا، امریکا کے ساتھ کام کرنے کا پہلے بھی موقع ملا ہے اور ان کی ترجیحات و تحفظات کا اندازہ ہے، انہیں سامنے رکھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں بات کروں گا کہ ہماری اپنی بھی ترجیحات اور قوم کی توقعات ہیں، ملکوں کی عزت اور وقار برابر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نان کیریئر سفارتکار اصولاً نئی حکومت بننے پر مستعفی تصور ہوتے ہیں لیکن ہم اس حوالے سے کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کریں گے اس لئے وہ اپنا کام جاری رکھیں، کارکردگی کی بنیاد پر تقرریاں کی جائیں گی، ہم نے اپنے مقاصد کو سامنے رکھنا ہے اور بلاوجہ کی اکھاڑ پچھاڑ نہیں کی جائے گی۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں بنے گی تاہم اس حوالے سے بوقت ضرورت قومی سلامتی کے اداروں سے ان پٹ لی جائے گی جو ضروری ہے، امریکا سمیت ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ سی پیک بہت اہم اور طویل المدتی منصوبہ ہے جو گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے، ہماری جماعت نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی اس کی حمایت کی تھی، اس منصوبے کے سماجی و اقتصادی پہلوئوں پر چینی قیادت سے بات چیت کی جائے گی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات