وزیراعظم کے خطاب میں کرپشن کے خاتمے،فلاحی ریاست کے قیام، سادگی اپنانے کی ترجیحات کا تذکرہ خوش آئند ہے ، ساجد علی نقوی

لاپتہ افراد ، معاشی و معاشرتی ناہمواری ، داخلی ہم آہنگی ، ہر قسم کے استحصال کے خاتمے ، اقلیتی برادری کے حقوق سمیت دیگر امور کا تذکرہ نہیں کیاگیا ،جب تک داخلی استحکام نہیں آئیگا اس وقت تک معاشی استحکام ممکن نہیں،قائد ملت جعفریہ پاکستان

پیر 20 اگست 2018 19:55

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 اگست2018ء) قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے الیکشن 2018ء پر تحفظات کے باوجود ترجیحات پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے پہلے پالیسی خطاب میں ریاست مدینہ کا تذکرہ کیاگیا البتہ ریاست مدینہ ماڈل کیلئے میثاق مدینہ طرز کا معاہد بھی ناگزیر ہے، قانون کی حکمرانی ،خارجہ پالیسی کے بنیادی امورکا تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔

بنیادی انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور قانون سے ماوریٰ جبری نظام کے خاتمے کے حوالے سے بھی اظہار نہ کیاگیا ،فلاحی ریاست کے قیام کیلئے خود احتسابی کیساتھ معاشرے کے تمام افرا د کو یکساں مواقع اور حقوق فراہم کرنا بھی ضروری ہیںان خیالات کا اظہار قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے وزیراعظم کے خطاب پرتبصرہ کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ وزیراعظم کے قومی اسمبلی کے خطاب کے بعد قوم سے خطاب کا انتظار تھا ، وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کرپشن کے خاتمے،فلاحی ریاست کے قیام، سادگی اپنانے کی ترجیحات کا تذکرہ کیا جوخوش آئند ہے البتہ وزیراعظم کے خطاب میں بنیادی انسانی حقوق ،شہری آزادیوں کا تذکرہ نہیں کیاگیا، انتہائی تعجب خیز کہ رول آف لاء جو معاشرے میں امن کے قیام کیلئے انتہائی ضروری ہے اس کا تذکرہ بھی نہیں ہوا، قانون سے ماوریٰ جبر کا نظام، وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ، لاپتہ افراد ، معاشی و معاشرتی ناہمواری ، داخلی ہم آہنگی ، ہر قسم کے استحصال کے خاتمے ، اقلیتی برادری کے حقوق سمیت دیگر امور کا تذکرہ نہیں کیاگیا ، جب تک داخلی استحکام نہیں آئیگا، اس وقت تک معاشی استحکام ممکن نہیں، نومنتخب وزیراعظم اس جانب بھی اپنی توجہ مرکوز کریں اور معاشرے کی ناہمواریوں کے خاتمے کیلئے جامع روڈ میپ تشکیل دیں ،ریاست مدینہ ضرور رول ماڈل ہونا چاہیے لیکن اس کیلئے میثاق مدینہ طرز کا معاہدہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے اوراس کی پابند ی کی جائے تبھی اس خیال کو حقیقت کا روپ ملے گا، صرف ہمسائیہ ممالک سے بہتر تعلقات کا تذکرہ کیاگیا البتہ پاک بھارت تعلقات، مسئلہ کشمیر جیسا کور ایشو، افغانستان کے تعلقات بارے جامع پالیسی کا تذکرہ نہ کیاگیا، خارجہ پالیسی کے بنیادی امور کے حوالے سے پاک امریکہ تعلقات، اسرائیل فلسطین تنازعہ، ایران سعودیہ تنازعہ اور یمن و بحرین و شام کے مسائل کے بارے میں پالیسی کا اعلان نہ کیاگیا ، اس بات کا ضرور اعادہ کیاگیا کہ مدارس میں اصلاحات لاکر ان طلباء کو جج، جرنیل، انجینئر اور ڈاکٹرز بنایا جائے گا لیکن قابل، تربیت یافتہ اور باصلاحیت عالم دین بھی معاشرے کی ضرورت ہیں جو بہرحال کسی دوسرے شعبے کا ماہر پوری نہیں کرسکتا ، امید ہے نومنتخب حکومت ان اہم اور بنیادی نکات پر توجہ ضرور مرکوز کریگی کیونکہ ایک فلاحی ریاست کے قیام کیلئے خوداحتسابی کے ساتھ معاشرے کے تمام افراد کو یکساں موقع فراہم کرنا بھی لازم ہیں۔

صحیح صورتحال اس وقت سامنے آئے گی جب عملی اقدامات کیے جائیں گے۔