امید ہے منتخب ہونیوالے قائد ایوان،سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اپنے فرائض خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلیں گے، نصراللہ خان زیرے

پیر 20 اگست 2018 20:39

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اگست2018ء) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے گزشتہ روز صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں قائد ایوان اور اسپیکر وڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے قائد ایوان ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں شامل جماعتوں اور پشتونخواملی عوامی پارٹی نے 25جولائی کے انتخابات کو ملک کی تاریخ کے دھاندلی پر مبنی انتخابات قرار دیئے جس میں واضح طور پر ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت کرکے اپنے من پسند پارٹی کو مرکز اور صوبے میں لایا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس ملک کی تاریخ شروع سے ہی جمہوریت نواز اور آمریت نواز قوتوں کے مابین کش مکش کی تاریخ رہی ہے اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رہنمائوں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے ون مین ون ووٹ ، جمہوری اداروں کے قیام ، پارلیمنٹ کی بالادستی ، سماجی عدل وانصاف کیلئے قربانیاں دی ۔

انہوں نے کہا کہ 11اگست 1947کو جب بانی پاکستان محمد علی جناح نے آئین ساز اسمبلی میں تقریر کی تو اس وقت بھی ان کے تقریر کے متن کو اخبارات میں چھاپنے سے روکنے کی کوشش کی گئی اور پھر اسی طرح 1956میں جب آئین بنایا گیا تو بھی صرف دو سال کے بعد 1958میں ملک میں مارشل لاء لگا یا گیا اور خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے پہلے قیدی تھے جنہوں نے 14سال قید بامشقت کی سزا کاٹی۔

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ، باچا خان ، میر غوث بخش بزنجو نے ون یونٹ کے خلاف اور ون مین ون ووٹ کیلئے جدوجہد کی اور انہی قربانیوں کے نتیجے میں 1970میں پہلی مرتبہ عوام کو ووٹ کا حق ملا ۔ انہوں نے کہا کہ 1970کے انتخابات کے نتائج کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا ۔ اور پھر1977میں بھی دھاندلی کی گئی جو آخر کار ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی پر منتج ہوا اور پھر جنرل ضیاء کے آمریت کے گیارہ سال تک ملک کے محکوم ومظلوم عوام پر مارشل لاء مسلط رہی اور پھر1988سے 1999تک ملک میں کنٹرول جمہوریت رہی اور پھر جنرل مشرف کی چوتھی مارشل لا ملک پر مسلط ہوئی اور25جولائی کو ایک بار پھر عوام کی حق رائے دہی پر شب خون مارا گیا اور تاریخی دھاندلی کرکے اپنے من پسند لوگوں کو لایا گیا اور اس دھاندلی کے خلاف ملک کے تمام سیاسی جمہوری پارٹیوں نے احتجاج کیا اور اس الیکشن کو یکسر مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ایک بلوچ وزیر اعلیٰ بننے جارہا ہے جوکہ خوش آئند ہے مگر کیا اس صوبے میں پشتون وزیر اعلیٰ منتخب ہوسکتا ہے لیکن اس صوبے میں پشتون وزیر اعلیٰ کا بننا شجر ممنوعہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں پشتون بلوچ برابری زندگی کے تمام شعبوں میں لازمی ہے اور 1974میں اس وقت کے گورنر خان آف قلات میر احمد یار خان نے پشتون بلوچ اقوام کے درمیان زندگی کے تمام شعبوں میں برابری کے حوالے سے ایک فارمولہ پیش کیا اور نوٹیفکیشن جاری کیا جس پرعملدرآمد اگر ہوجائے تو پشتون بلوچ اقوام کے مابین برادرانہ تعلقات میں مزید بہتری آجائیگی۔

انہوں نے کہا کہ آزاد اور جمہوری افغانستان میں مسلح مداخلت اور جارحیت کی پالیسی جنرل ضیاء کے فوجی آمریت کے دورمیں شروع ہوئی اور دنیا جہاں کے دہشتگردوں ، انتہا پسندوں اور فرقہ واریت کے قوتوں کو لاکر یہاں دہشتگردی ، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو دوام دیا گیا جس کی وجہ سے آج پورا خطہ ، ملک اور بالخصوص پشتونخوا وطن دہشتگردی ، بم دھماکوں ، خودکش حملوں سے آگ وخون میں جل رہا ہے اور بے گناہ ،نہتے ، معصوم لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک دہشتگردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی نہیں کی جاتی اور پارلیمنٹ کے منظور شدہ نیشنل ایکشن پلان کے 22نکات پر من وعن عمل نہیں کیا جاتا اور ہمسایہ ممالک بالخصوص افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ پر امن بقاء ہم آہنگی کی بنیاد پر تعلقات استوار نہیں کیئے جاتے اس وقت تک امن کا قیام محال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم ، صحت ، آبپاشی ، آبنوشی اور دیگر شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور کوئٹہ کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے سابقہ حکومت نے مانگی ڈیم کے منصوبے پر کام شروع کیا مگرافسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اس منصوبے کو سست روی کا شکار بنایا گیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اسی طرح ھلک ڈیم ، برج عزیز خان ڈیم بننے سے بھی کوئٹہ کی پانی کی صورتحال بہتر ہوجائیگی ۔