Live Updates

صدارتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی بطور اُمیدوار نامزدگی

مسلم لیگ ن سیاست کھیل گئی، ایک تیر سے تین شکار کر دئے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 31 اگست 2018 12:11

صدارتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی بطور اُمیدوار نامزدگی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 31 اگست 2018ء) : صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ 4 ستمبر کو ہو گی جس کے لیے گذشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حتمی فہرست جاری کر دی۔ اس حتمی فہرست کے مطابق 4 ستمبر کو ڈاکٹر عارف علوی، اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمان کے مابین مقابلہ ہوگا۔ صدارتی انتخاب کے حوالے سے جو بات زیادہ زیر بحث رہی وہ اُمیدواروں کی نامزدگی پر اپوزیشن کا اختلاف تھا۔

مسلم لیگ ن نے صدارتی اُمیدوار کے طور پر مولانا فضل الرحمان کو نامزد کیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا صدر لانے کے لیے اعتزاز احسن کو نامزد کیا۔ جس پر متحدہ اپوزیشن میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہ اختلاف اتفاقاً نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر پیدا کیا گیا جس کے پیچھے مسلم لیگ ن ہی کی حکمت عملی تھی۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ ن نے صدارتی انتخاب میں ایک تیر سے تین، تین شکار کیے۔

پہلا یہ کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو صدارتی اُمیدوار نامزد کر کے ان کی پاکستان پیپلزپا رٹی سے دوستی کو مخالفت میں تبدیل کر دیا۔ دوسرا یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آ صف علی زرداری کے اپوزیشن کے متحد ہونے اور ان کے ساتھ ہونے کے دعوے کو جھوٹا ثابت کر دیا، آصف زرداری نے دعویٰ کیا تھا کہ تمام اپوزیشن ساتھ ہے اور جب چاہیں اپنی مفاہمتی پالیسی کے ذریعے کسی بھی بازی کو اُلٹ سکتے ہیں۔

تیسرا نشانہ یہ کہ آصف علی زرداری کے قریبی اتحادیوں اے این پی، مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر کی صدارتی الیکشن کے ساتھ ساتھ سینٹ میں بھی حمایت حاصل کر لی۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو صدارتی اُمیدوار نامزد کرنے کا فیصلہ شہباز شریف نے نہیں بلکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے ایک قریبی ترین سابق وفاقی وزیر نے نوازشریف سے مشاورت کے بعد کیا۔

جس وقت یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا اس وقت مسلم لیگ ن کے اندر اہم ترین رہنماؤں نے اس کی مخالفت کی جس پر واضح طور پر کہا گیا کہ صدارتی الیکشن ساری اپوزیشن مل کر بھی نہیں جیت سکتی ۔ مسلم لیگ ن کے اندرونی ذرائع کے مطابق نواز شریف کا حکم ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط کیا جائے اور آصف زرداری پر کسی صورت بھروسہ نہ کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق جس وقت متحدہ اپوزیشن ، پیپلزپارٹی اوردیگر سٹیک ہولڈرز اکھٹے ہوئے تو ن لیگ نے اپنا پتا کھیلتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کو جان بوجھ کر صدارتی اُمیدوار نامزد کیا اور ساتھ میں وہیں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ سینٹ سمیت دیگر معاملات میں بھی اکٹھے چلیں گے ۔

اسی میٹنگ میں اہم ن لیگی رہنما نے کہا مولانا صاحب آپ زرداری صاحب کے پاس جائیں، اگر زرداری صاحب آپ کے ساتھ مخلص ہوں گے تو آ پ کے حق میں اپنا اُمیدوار بٹھا دیں گے ، اگر وہ آ پ کے ساتھ مخلص نہ ہوئے تو سمجھ لیجئے گا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی مل کر کوئی کھیل کھیل رہی ہے۔ دونوں کسی صورت میں کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے دونوں کی حکومتوں کو خطرہ ہو۔

مولانا فضل الرحمان اسی وجہ سے آصف زرداری کے پاس گئے اور کہا اگر آ پ اب ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو ہم مزید آپ سے اتحاد نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اب بھی اپنی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کو استعمال کر رہی ہے اور ان کا اصل مقصد صدارتی انتخاب سے زیادہ آ صف زرداری کو تنہا کرنا اور ن لیگ کی چھتری تلے ان تمام سیاسی جماعتوں کو لانا ہے جو پہلے آ صف زرداری کے ساتھ ہوتی تھیں تاکہ ان جماعتوں کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی مہم چلانا ہے ۔

الیکشن سے پہلے مولانا فضل الرحمان ، دیگر اتحادیوں اور ن لیگ میں ایک اور معاہدہ فائنل ہو گا کہ محرم کے فوری بعد حکومت کے خلاف عوامی سطح پر متحد ہو کر ایک تحریک چلائی جائے جس کی کمان لیگی قیادت کے ہاتھ میں ہو۔ مولانا فضل الرحمان کی نامزدگی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتزاز احسن کی نامزدگی نے مولانا فضل الرحمان کو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلقات پر تحفظات کا شکار کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی کے اُمیدوار اعتزاز احسن مولانا فضل الرحمان کے حق میں دستبردار نہیں ہوئے جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی میں اختلاف پیدا ہو گیا اور اسی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حکمت عملی بھی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات