منی لانڈرنگ کیس :

بینکنک کورٹ نے آصف زرداری کی عبوری ضمانت منظور کرلی عدالت کا سابق صدر کو بطور ضمانت 20لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم،کیس کی سماعت 4ستمبر تک ملتوی ایف آئی اے نے آصف زرداری کو بدنام اور حراساں کرنے کیلئے عبوری شیٹ میں مفروری ملزم قرار دیا،فاروق ایچ نائق ،دنیا جانتی ہے ،زرداری نوابشاہ سے ایم این اے کا الیکشن لڑرہے تھے ،ایسی زیادتیاں جاری رہیں تو اسٹیٹ کے اداروں سے قوم کا اعتماد اٹھ جائے گا ،آصف زراری کے وکیل کی بینکنک کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 31 اگست 2018 15:43

منی لانڈرنگ کیس :
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 31 اگست2018ء) کراچی کی بینکنگ کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی جعلی اکاؤنٹس کیس میں 20 لاکھ روپے کے عوض عبوری ضمانت منظور کرلیہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز کراچی کی بینکنگ کورٹ میںسابق صدر آصف علی زرداری کی جعلی اکاؤنٹس کیس میں اپنے وکیل فاروق ایچ نائق کے ساتھ پیش ہوئے جہاں پرسیکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کئے گئے تھے اس موقع پر آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائق نے عدالت کے سامنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے آصف زرداری کو منی لاڈرنگ کیس میں نامزد کر رکھا ہے لیکن کوہ چئیرمین پیپلز پارٹی منی لاڈرنگ کیس کا ٹرائل کورٹ میں پیش ہو کر بھرپورطریقے سے دفاع کریں گے اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی 15 دن کی حفاظتی ضمانت منظور کی ہے اس لیے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی جائے۔

(جاری ہے)

عدالت نے آصف زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرتے ہوئے 20 لاکھ روپے زرضمانت جمع کرانے کا حکم دیا جس کے بعد کیس کی سماعت 4 ستمبر تک ملتوی کردی واضح رہے کہ بینکنگ کورٹ نے اس سے قبل آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جس پر انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کی جس پر عدالت نے انہیں 3 ستمبر تک متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس موقع پر آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی بینکنگ کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کا معاملہ بینکنگ کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں، ان کے موکل کے خلاف ایف آئی اے نے بے بنیادچارج شیٹ تیار کی ہے انہوں نے ایف آئی آر میں آصف زرداری کو ملزم ظہار نے کیا گیا بلکہ بتایا گیا کہ ایون انٹرنیشنل کمپنی نے زرداری گروپ پرائیوٹ لمٹیڈ کے اکاؤنٹ میں بھیجے ہیں جو کہ محض الزام ہے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے عبوری چارج شیٹ میں آصف زرداری کو مفروری ملزم قرار دیا ہے کہ حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ آصف زرداری نوابشاہ کے علاقے بے نظیر آباد سے الیکشن لڑ رہے تھے لیکن انہیں بدنام اور حراساں کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ ایف آئی اے نے اس فراڈ کے بارے میں دو اشخاص کے بارے میں بھی لکھا ہے اور اس کیس سے آصف زرداری کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی انہیں خواہ منخواہ میں منی لانڈرنگ کیس میں بدنام کیا گیا حالانکہ 2008میں آصف زرداری صدر بنے تو انہوں نے زرداری گروپ پرائیوٹ لمٹیڈ سے ڈائریکٹر شپ ختم کردی تھی انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے 9سال جیل میں گزارے اور 2سال اٹک قلعے میں ان کے کیس کا ٹرائل ہوتا رہا اور پھر تمام کیسز میں گہوائی کے بعد ان کو آزاد کیا گیا اسی طرح بے نظیر بھٹو شہید کو بھی 9سال تک جلاوطن رکھا گیا اور اس دوران بے نظیر بھٹو اپنے شوہر اور بچوں سے ملاقات نہ کرسکیں اس سے اور بڑی زیادتیاں اور کیا ہوگی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر اس طرح کی زیادتیاں ہوتی رہی تو پھر اسٹیٹ کے اداروں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائیں گا اور ایسے اقدامات جمہوریت کی بھی نفی ہیں یاد رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، غنی مجید، حسین لوائی اور طحہ رضا گرفتار ہیں جب کہ آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اور انور مجید کے 3 صاحبزادے عبوری ضمانت پر ہیں۔

اس سے قبل ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا