چیئرمین فورم سینیٹر کرنل (ر)سید طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت سینیٹ فورم پالیسی ریسرچ کا اجلاس

کالا باغ ڈیم سمیت دیگر ڈیمز کو زیر بحث لاکر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ،پانی کی قلت کے حوالے سے پاکستان ایشیاء پیسفکم ریجن میں 48ممالک میں سے 46ویں نمبر پر ہے ، معاملہ پورے ایوان کی کمیٹی میں اٹھایا جائے ،سینٹ فورم

جمعہ 31 اگست 2018 20:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 اگست2018ء) ء سینیٹ فورم پالیسی ریسرچ کا اجلاس چیئرمین فورم سینیٹر کرنل (ر)سید طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت ادارہ برائے پارلیمانی خدمات کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔فورم اجلاس میںملک میں پانی کی قلت کے حوالے سے تیار کی گئی رپورٹ کا جائزہ لینے کے علاوہ ، سینئر واٹر ریسورس سپیلشٹ انجینئر ڈاکٹر محمد ارشد سے پانی کی قلت کو حل کرنے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ لی گئی۔

اجلاس میں پانی کی قلت کے حوالے سے رپورٹ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔چیئرمین فورم نے کہا کہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کو جذبات کی بجائے حقائق کے مطابق سخت فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ آنے والی نسلیں پانی کی بوند کو ترسیں گیں۔

(جاری ہے)

پانی کی کمی کو پوراکرنے کے حوالے سے چیئرمین سینٹ سے درخواست کی جائے گی کہ معاملہ پورے ایوان کی کمیٹی میں اٹھایا جائے جس میں ہاہرین سمیت تمام سٹیک ہولڈر ز سے مشاورت کرکے رپورٹ تیار کی جائے۔

سینٹ فورم پالیسی ریسرچ کو انجینئر ڈاکٹر محمد ارشد نے پانی کی قلت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں پانی کی دستیابی اور قلت کو پوراکرنے کے حوالے سے نظر انداز کیا گیا۔ پانی بہت اہم مسئلہ ہے۔ ملک کی معیشت ، ماحول ،صنعت ، بجلی ،زراعت و دیگر اہم شعبوں کا پانی سے بہت زیادہ تعلق ہے۔ پانی کی قلت عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔

امریکہ اور آسٹریلیا سمیت پانی کی کمی کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ موسمی تغیرات اور آبادی میں اضافہ ، پانی کی قلت کی بنیادی وجہ ہیں ۔دنیا میں زراعت کے شعبے میں 70فیصد پانی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں 90فیصد استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف ممالک نے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیمز تیار کرکے پانی کی کمی کو پورا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1947میں سالانہ فی کس60 5,2 کیوبک میٹر پانی موجود تھا جو 2018میں 1ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہوچکاہے۔

پاکستان ایشیاء پیسفکم ریجن میں 48ممالک میں سے 46ویں نمبر پر ہے جو پانی کی قلت کا سامنا کررہا ہے۔ انہوں نے گذشتہ30سالوں کے دوران دریا ئے جہلم چناب اور سندھ میں پانی کے بہاؤ بارے بھی آگاہ کیا کہ کم سے کم 97ملین ایکڑ فٹ زیادہ سے زیادہ 177اور اوسطاً 149ملین ایکڑ فٹ رہا ہے۔25سی50فیصد پانی ڈیموں سے فصلوں تک پہنچنے میں ضائع ہوجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ ناقص مینجمنٹ سسٹم ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

ہائیڈرو میٹرولوجیکل ڈیٹا کی کمی ہے ۔ پانی کی طرف کم توجہ دی گئی اور پہلی دفعہ نیشنل واٹرپالیسی کا ڈارفٹ 2011میں تیار ہوا اور 2018میں منظوری دی گئی۔ ایک تھنک ٹینک بنانے کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان میں نیشنل واٹر کمیشن قائم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بڑے اشوز پر ہم آہنگی پیدا نہیں کی جائے گی یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یونیورسٹیوں میں مضامین شروع کیے جائیں، نیشنل واٹر پلان بنایا جائے اور سپلائی کے سسٹم کو موثر بنایا جائے۔

سینیٹر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سیاسی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ پانی کا مسئلہ کہاں ہے اور حل کیا ہے۔ جذبات سے نکل کر فیصلے کرنا ہوں گے ۔ اس فورم کا مقصد اشوز کا جائزہ لیکر حکومت کو تجاویز دینا ہیں ۔ممبران کو سیاسی وابستگی سے ہٹ کر کالا باغ ڈیم سمیت دیگر ڈیمز کو زیر بحث لاکر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہم 31لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینک دیتے ہیں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے ۔

مون سون اور گلیشئر کے پگھلنے پر اضافی پانی آتا ہے اسے جمع کیا جاسکتا ہے۔ صوبائی وزیر آبپاشی سینیٹر محسن خان لغار ی نے کہا کہ نہروں اور کھالوں سے زمین تک 60فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے ۔1970میں 50ہزار ٹیوب ویلز تھے اب 12لاکھ سے بھی زائد ہیں جو زیر زمین پانی کی سطح کو تباہ کرتا ہے۔ اگلے ماہ صوبہ پنجاب میں اس حوالے سے ایک پالیسی تیار کرلی جائے گی۔

ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے ۔سالانہ آبیانہ فی ایکڑ کسان سے 135روپے وصول کیا جاتا ہے جو بہت ہی کم ہے اور یہ منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے کہ شہروں میں پانی کی کمی کو پور اکرنے کے لیے نہروں سے پانی حاصل کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ دریائے راوی اور ستلج کے درمیان کی زمین کو دوآب کہتے ہیں جہاں 24 ملین ایکڑ فٹ پانی گزرتا تھا جو اب 2ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم ہے اس لیے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے گنے کی کاشت پر پابندی کی جائے۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ سروس پمپز بندکرانے چاہییں۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے جرمانے عائد کرنے کے لیے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو کرنی چاہیے لوگوں کو شعور دینا ہوگا۔ چیئرمین فورم نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے سیاسی سوچ نہیں ہے اگر یہ بن گئی تو مسئلے حل ہوجائیں گے۔

فورم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں وفاقی وزیر امور خارجہ کو بلاکر خارجہ پالیسی کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔ فورم کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز نزہت صادق ، فیصل جاوید ،بیرسٹر محمد علی سیف ، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ،چوہدری شجاعت حسین، افراسیاب خٹک ، الیاس احمد بلور ، سحر کامران ، میر محمد نصیر مینگل اور محسن خان لغاری اور سیکرٹری فورم پالیسی ڈاکٹر سید پرویز عباس نے شرکت کی ۔