Live Updates

پاکستان میں سیاسی سمت بالکل درست ہے، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی سٹریٹجی بنانے کا حق حاصل ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف اکٹھی نہ ہو بلکہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے بڑے مسائل کے حل کے لیے اکٹھی ہوں ،پی ٹی آئی حکومت نے 9 دنوں میں جو کیا ہے وہ بے مثال ہے،آتے ہی سنسر شپ کا خاتمہ کر دیا،ملک بھر میں ایک دن میں 15 لاکھ پودے لگا ئے، 15 ٹاسک فورسز بنا دیں

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو

بدھ 5 ستمبر 2018 00:20

پاکستان میں سیاسی سمت بالکل درست ہے، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں ..
اسلام آباد ۔ 4 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 ستمبر2018ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی سمت بالکل درست ہے، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی سٹریٹجی بنانے کا حق حاصل ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف اکٹھی نہ ہو بلکہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے بڑے مسائل کے حل کے لیے اکٹھی ہوں ،پی ٹی آئی حکومت نے 9 دنوں میں جو کیا ہے وہ بے مثال ہے،آتے ہی سنسر شپ کا خاتمہ کر دیا،ملک بھر میں ایک دن میں 15 لاکھ پودے لگا ئے، 15 ٹاسک فورسز بنا دیں ،منگل کو ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عارف علوی کو بطور صدر پاکستان منتخب ہونے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں، مجھے قوی یقین ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی ایک بہترین صدر ثابت ہوں گے اور صدر پاکستان کی حیثیت سے ملک و قوم کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کام کریں گے، اپوزیشن کو حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اہم ملکی معاملات پر متحد ہونا چاہیئے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما ہیں جنہوں نے شروع دن سے ہی وزیراعظم عمران خان کی نئے پاکستان کے لیے جاری جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا اور ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عارف علوی بڑے ہی نفیس اور شائستہ آدمی ہیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ بہت سے ایسے معاملات جن میں ہمیں اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اسے ڈاکٹر عارف علوی بہتر طریقے سے کر پائیں گے اور ہم ملکی ترقی و خوشحالی کے سفر میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی میڈیا سے توقعات غلط ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دو الگ الگ جماعتیں ہیں جو سیاست میں رہنے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کی یہ کوشش ہے کہ ان کو مرکزی اپوزیشن سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی سمت بالکل درست ہے، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی سٹریٹجی بنانے کا حق حاصل ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف اکٹھی نہ ہو بلکہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے بڑے مسائل کے حل کے لیے اکٹھی ہوں جو سب سے ضروری بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے صدر کے لیے اعتزاز احسن کا نام بالکل بھی نہیں دیا، سیاست دان میڈیا میں رہنے کی کوشش کر تے ہیں،خورشید شاہ کو بھی میڈیا کوریج نہیں مل رہی تھی اس لیے انہوں نے ایسی بات کر دی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید کا یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ پی ٹی آئی حکومت جتنی مائیکرو سکوپ میں ہے اتنی کبھی بھی کوئی حکومت نہیں رہی،ہم میڈیا کو بہت حساس لیتے ہیں اور جو بات بھی میڈیا پہ آتی ہے اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس پر ردعمل بھی دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی حکومت نے اتنے کم وقت میں اتنے اہم اقدامت نہیں کیے جتنے پی ٹی آئی کی حکومت نے کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی تو میڈیا پر جو مرضی آتا رہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتی اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کا حال بھی سب کے سامنے ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے اشتہارات بھی نہیں دینے اور ہم نے مینجمنٹ والے کردار بھی نہیں کرنے اس لیے ہمارا کردار دوسروں سے بہت مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف لیے گئے دو ازخود نوٹس بھی میڈیا کی رپورٹس پر ہی لیے گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کے 9 دنوں میں جو کیا ہے وہ بے مثال ہے مثلا گزشتہ 70 سالوں سے سنسر شپ ختم نہیں ہوئی تھی، ہم نے آتے ہی سنسر شپ کا خاتمہ کیا ہے، اسی طرح ملک بھر میں ایک دن میں ہم نے 15 لاکھ پودے لگا دئیے، وزیراعظم عمران خان نے 15 ایسی ٹاسک فورسز بنا دیں ، وزیراعظم عمران خان نے جو اکنامک ایڈوائزری کونسل بنائی ہے اس میں اتنے بڑے لوگ شامل کیے جو آج تک ملکی تاریخ میں نہیں رہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سادگی اپنانے اور کفایت شعاری کے لیے اپنا 11 سو کنال کا محل چھوڑ کے سٹاف کالونی کے صرف 3 بیڈ رومز کے گھر میں رہ رہے ہیں، وزراء اور مشیران بھی وزیراعظم عمران خان کی نقل کرتے ہوئے اپنی پر تعیش زندگیوں کو سادگی میں بدلنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہائوس کی گاڑیوں کو بھی بیچنے کے لیے پیش کر دیا ہے تاکہ عوام کے ان پیسوں کو ملکی خزانے میں جمع کرایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری حکومت کے صرف 9 دنوں کے اقدامات ہیں جو آج تک کسی بھی حکومت نے نہیں لیے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت وزیراعظم عمران خان کی ولولہ انگیز اور متحرک قیادت میں ہر وہ کام کر رہی ہے جس سے ملک و قوم کا فائدہ ہو۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئی ریاست انتہا پسندی برداشت نہیں کر سکتی، گلی محلوں میں چونکہ فوج نہیں جا سکتی اس لیے اس کے لیے ہم نے اپنی پولیس کو تگڑا کرنا ہے اور اپنے ادارے مضبوط بنانے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے 55 بلین روپے کے اشتہارات دئیے ہیں جو کہ بہت ہی زیادہ ہیں جنہیں ہم برداشت نہیں کر سکتے، سینیٹ میں بھی یہ ریکارڈ ہم پیش کر چکے ہیں جو اس وقت سینیٹ کے ریکارڈ کا حصہ بھی ہے اس کے علاوہ سرکاری پیسے سے باہر دوروں پر جانے والے صحافیوں کے نام عوام کے سامنے لانا بھی ضروری ہے جو لیگل آبلیگیشن بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اشتہارات کو بند کرنے سے بھی زیادہ ضروری ان میں شفافیت لانا ہے ،اس حوالے سے میں نے پرنسپل انفارمیشن آفیسر سے بڑا واضح کہہ دیا ہے کہ مجھے اس ضمن میں شفافیت والا نظام وضح کر کے دیں، اس سلسلے میں میں نے اے پی این ایس اور پی بی اے سے بھی درخواست کی ہے،ریگولیٹری باڈیز کا کوئی کردار بھی نہیں ہے، پریس کونسل ہے جو فنکشنل بھی نہیں لیکن اسے فنڈز جا رہے ہیں، وہاں گاڑیاں بھی ہیں لیکن فنکشنل نہیں اور اسی طرح پیمرا بھی ہے اس کا کردار تو ہے لیکن اتنا موثر نہیں جتنا ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ اخبارات کو اشتہارات نہ دینے سے ہم بلیک میل نہیں ہوں گے کیونکہ اس طرح تو پھر ہم بلیک میل ہی ہوتے رہیں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے کسی نے ایک غیر ملکی چینل پہ کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو تو فوج لیکر آئی ہے تو میں نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ بھارت سمیت دیگر ممالک کی ہم پر جو تنقید رہی ہے کہ پاکستانی فوج اور جمہوریت ایک صفحے پر نہیں لیکن اب تو یہ بہت اچھا ہو گیا ہے کہ اب آپ سب کو یقین تو ہو گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو بات کرتے ہیں وہی ہماری فوج بھی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس موقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو بات کریں گے ہماری فوج اور دیگر ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے،نواز شریف اور آصف زرداری کا مسئلہ یہ تھا کہ ریاست کے جو بھی تعلقات تھے ان کی اپنی ذات سے وابستہ تھے جیسے کہ فلاں جگہ اسٹیل مل لگانی ہے تو فلاں جنرل سے بات کر لیں اسلیے ان کے ادوار کے جو بھی معاہدے ہیں وہ نواز شریف، مودی اور نواز شریف، اردگان تھے ،پاکستان کہیں نہیں تھا لیکن عمران خان اور نواز شریف کی پالیسی میں واضح فرق یہ ہے کہ ان معاہدوں میں اب عمران خان اور مودی کی بجائے پاکستان اور بھارت، پاکستان اور چین یا پاکستان اور ترکی ہو گا جو ماضی میں نہیں ہوتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پالیسیوں میں فوج اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کو اعتماد میں لیتے ہیں،لیتے رہیں گے اور ساتھ لیکر چلیں گے، اسی طرح اگر کوئی عدالتی اصلاحات ہیں تو اس میں ہم عدلیہ کو بطور ایک ادارہ ساتھ لیکر چلیں گے اس لیے یہ بات کہنا کہ اس سے سول حکمرانی کو کوئی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ امریکہ میں بھی جو پالیسیاں آتی ہیں ان میں پینٹا گان سمیت سی آئی اے سبھی اپنا اپنا ان پٹ دیتے ہیں اسی طرح یہاں بھی ہم جو بھی پالیسی بناتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کا یہ بڑا واضح وژن ہے کہ چاہے خارجہ پالیسی ہو یا کوئی اندرونی پالیسی تو اس میں فوج کا ان پٹ لازمی ہو گا جبکہ عدلیہ کا بھی ان پٹ شامل ہو گا جس میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات