Live Updates

یہاں پر یو ٹرن لینا ضروری ہے

منصور علی خان نے پاکستان تحریک انصاف کی یوٹڑن کی سیاست پر تنقید کر دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 8 ستمبر 2018 11:30

یہاں پر یو ٹرن لینا ضروری ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 08 ستمبر 2018ء) : نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے اینکر پرسن منصور علی خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اور تبدیلی کا ایک بہت گہرا تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ شروع سے ہی موجودہ حکمران جماعت کی سیاست تبدیلی کے ارد گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے سیاسی حریفوں کو شکار کیا وہیں یہ خود بھی اکثر جگہوں پر تبدیلی کا شکار ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے کپتان نے اکثر جوش میں اعلانات کیے اور پھر میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں ہے، یہاں پر یوٹرن لینا ضروری ہے۔ میرے کپتان نے اکانومی کی جنگ جیتنے کے لیے بڑی ٹیم کا اعلان کیا جس میں دنیا بھر سے ماہر پاکستانیوں کو شامل کیا گیا اور اس پر داد بھی وصول کی،اس فیصلے پر کافی تنقید ہوئی لیکن وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کافی دعوے کیے کہ ہم نہ ڈرنے والے ہیں اور نہ ہی جھُکنے والے ہیں لیکن اگلے ہی روز اس ٹیم کی سلیکشن تبدیل کر دی گئی کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں یہاں پر یوٹرن لینا ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

منصور علی خان نے کہا کہ میری کپتان نے وزیراعظم ہاؤس کی لگژری گاڑیوں سمیت 102 گاڑیوں کی نیلامی کا اعلان کیا لیکن پھر پارلیمنٹ لاجز کے مکینوں کی آسائش کے لیے خزانوں کے منہ کھول دئے گئے، اور تزئین و آرائش کے لیے 11 کروڑ اور 35 لاکھ روپے کے ٹینڈرز جاری کیے گئے کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں یہاں بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔ طارق بشیر چیمہ کی بطور وفاقی وزیر برائے ریاستی سرحدی امور کی تعیناتی کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان کی وزارت کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وزارت ہاؤسنگ کا قلمدان سونپ دیا گیا کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں یہاں پر بھی یو ٹرن لینا ضروری ہے۔

میرے کپتان نے بابر اعوان کو کابینہ کا حصہ بنایا، جبکہ نیب کیسز میں میڈیا بابر اعوان کی نامزدگی کے حوالے سے چیختا رہا اور یاد دلاتا رہا کہ وہ 27 ارب روپے کی کرپشن کے کیسز میں زیر احتساب ہیں لیکن انہیں کابینہ میں شامل کیا گیا اور پھر بالآخر بابر اعوان کو مستعفی ہونا پڑا کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔

میرے کپتان نے دعوے کیے کہ حکومت آتے ہی گورنر ہاؤسز کے در و دیوار گرا دئے جائیں گے، نئی حکومت آ گئی، لیکن پُرانے گورنر ہاؤسز کی دیواریں نہیں گرائی گئیں کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔ میرے کپتان نے جس بھی گورنر کی نامزدگی کا اعلان کیا اس پر تنازعہ ضرور کھڑا ہوا، گورنر بلوچستان کے لیے پہلے ڈاکٹر محمد خان کی نامزدگی کا اعلان کیا گیا لیکن پھر انکار کر دیا گیا کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔

میرے کپتان نے نگران وزیراعلیٰ کے لیے ناصر کھوسہ کی نامزدگی کا اعلان کیا لیکن یہ کہا گیا کہ وہ مخالفین کے قریبی ساتھی ہیں، اور اس تنقید کی بوچھاڑ کے نتیجے میں یہ فیصلہ بھی تبدیل کر دیا گیا کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔ میرے کپتان نے دعویٰ کیا کہ ہم کبھی کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے اور آئی ایم ایف سے ہمیشہ کے لیئے ناطہ توڑ لیں گے لیکن حکومت کے پہلے ہی ماہ آئی ایم جانے کی نوید سنا دی گئی کیونکہ میرے کپتان کو کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔

میرے کپتان نے موروثی سیاست کے حوالے سے چاہے وہ شریف خاندان ہو یا بھٹو خاندان ہو تابڑ توڑ حملے کیے لیکن خٹک اور ترین خاندان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے کیونکہ میرے کپتان کو ایک مرتبہ پھر کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔میرے کپتان نے نئےپاکستان میں پُرانی قیمتوں کو کم کرنے اور نئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے دعوے کیے لیکن حکومت کے پہلے ہی مہینوں میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا، اس سے غریب پاکستانیوں پر مہنگائی کا مزید بوجھ بڑھے گا،مہنگائی کی کمر توڑنے کے دعوے تبدیلی کا شکار ہو گئے کیونکہ میرے کپتان کو ایک مرتبہ پھر کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔

کسان کی حالت بدلنے کا بلند وباگ دعویٰ کیا گیا اور پھر کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اور اسی طرح مسافروں کے ٹول پلازوں کے ٹیکسز میں اضافوں کی بجلی بھی گرائی گئی کیونکہ میرے کپتان کو ایک مرتبہ پھر کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔ روایتی سیاست نہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے میرے کپتان کو اپنے بد ترین حریفوں ایم کیو ایم ، ق لیگ اور آزاد اراکین کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا ، انہیں بالآخر حکومت بنانے کے لیے روایتی سیاست ہی کرنا پڑی کیونکہ میرے کپتان کو ایک مرتبہ پھریہاں پر بھی کہا گیا کہ یہ ممکن نہیں، یہاں پر بھی یوٹرن لینا ضروری ہے۔ منصور علی خان نے مزید کہا کہ تبدیلی کی حومت خود ہی تبدیلی کا شکار ہو چکی ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات