Live Updates

سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے جی ڈی پی میں اضافہ،واضح روڈ میپ کی ضرورت ہے،سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی

پیر 10 ستمبر 2018 17:06

سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے جی ڈی پی میں اضافہ،واضح روڈ میپ کی ضرورت ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 ستمبر2018ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی نے سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے جی ڈی پی میں اضافے،سیکرٹری کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دے جامع رپورٹ تشکیل دینے کی سفارش کی ہے،کمیٹی نے ہر ادارے سے علیحدہ علیحدہ بریفینگ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ ہر ادارے کی استعداد کارکا علم ہو سکے،کمیٹی نے بچوں کے کھلونوں اور سرینجوں کے ذریعے ملک میں ہاسپٹلز ویسٹ درآمد ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو متبادل ٹیکنالوجی کے استعمال پر فوری توجہ دینے پر بھی زور دیا ہے،کمیٹی نے پاکستان کولٹی اسٹینڈرڈ کنٹرول اتھارٹی کے پاس ملک بھر میں صرف36 انسپکٹرز ہونے کا انکشاف بعد اشیاء کی کوالٹی پر بھی سوالات اٹھا دیئے۔

(جاری ہے)

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس پیر کو چیئرمین سینیٹر مشتاق احمد کی زیر صدارت اسلام میں ہوا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی سائنس و ٹیکنالوجی کی صورتحال شرمناک ہے،ملک تعلیمی اداروں کی رینکنگ دیکھ لیں تو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا اندازہ ہو جائے گا،وزارت اور متعلقہ ادارے رکاوٹوں سے آگاہ کریں ، اس کو دور کیا جائے گا،اداروں میں کرپشن کا ہونا ان کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے،قانونی رکاوٹ ہے تو ادارے کمیٹی کو آگاہ کریں، سرکاری میڈیا پر بھی سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے پروگرامز چلانے کی ضرورت ہے،ہم بچوں کو زہر کھلارہے ہیںڈیڑھ سال وہ گئے ہیں تاہم اب تک حلال فوڈ اتھارٹی نہ بن سکی۔

سینیٹر پیر صابر شاہ نے کہا ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں شامل ہی نہیں، نصاب میں کوئی ایسی شے نہیں جس سے بچوں میں سائنسی و ٹیکنالوجی کے شعبے میں استعداد کار کو بڑھانے کے حوالے سے کوئی فائدہ نظر آئے،میٹرک تک کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، تعلیمی نصاب ایک ہی ہونا چاہیے ، 18 ویں ترمیم کے ذریعے مرکزیت کو ختم کیا گیا، اب صوبے خود بھی قانون ساز ی کرسکتے ہیں، ہم پہلے بنیاد کو مضبوط کرتے نہیں بعد میں ریسرچ نہ ہونے کا رونا روتے ہیں،سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ 15-25 سال کے نوجوان اس ملک کی طاقت ہیں،بد قسمتی سے ہم نوجوانوں کو نظر انداز کررہے ہیں،ملک کو اٹھانا ہے تو سائنس وٹیکنالوجی کیلئے کام کرنا ہو گا،ریسرچ پر قوم کا پیسہ خرچ تو ہوتا ہے مگر اس کے فوائد حاصل نہیں ہوتے،اربوں روپے ریسرچ پر خرچ ہوئے مگراس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا،سائنٹیفنک ڈیٹا ہونا چاہیے،سائنس و ٹیکنالوجی کا ہر ادارہ دیوالیہ ہو چکا ہے،اونرشپ لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے،امریکہ کے سارے ادارے چل رہے جبکہ ہمارے سارے ادارے بیٹھ رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان اسٹنڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 36 آدمیوں کے ساتھ یہ ملک بھر میں کوالٹی کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں،میں نے ایک بڑی شخصیت کے گیارہ ملز بند کردئیے،چونکہ یہ ملیں کینسر کا باعث بن رہی تھیں،یہ بدقسمتی ہے کہ وزارت کی طرف سے وکیل کو پانچ لاکھ جبکہ مخالفت فریق سات کروڑ ادا کرتا ہے۔

سینیٹر سکندر میندرو نے کہا کہ کوئی قانونی رکاوٹ ہے تو اس سے کمیٹی کو تحریری طور پر آگاہ کرے، کمیٹی قانونی سازی کے ذریعے رکاوٹوں کو دور کریگی،ریسرچ پر خرچ ہونے والے پیسے اور اس کے نتائج بارے قوم کو پتہ چلنا چاہیے۔سیکرٹری وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے کمیٹی کو بریفینگ دیتے ہوئے بتایا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کیلئے 2012 میں جی ڈی پی میں4.7 بلین تھا جبکہ2018-19 میں اس کو 10.8 بلین کر دیا گیا ہے،اس میں وزارت کے تمام امور سمیت ریسرچ بھی شامل ہیں، ریسرچ اور ترقی کیلئے علیحدہ رقم مختص نہیں کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ پالیسی اور اہداف کے تعین کیلئے ایک مکمل ٹیم ہونی چاہیے،سائنس وٹیکنالوجی کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں جس کے ذریعے اس کے منصوبوں کے اثرات سے آگا ہوں،پاکستان ٹیلی ویژن پر پہلے ’’سائنس میگزین‘‘ کے نام سے سائنسی معلومات پر مبنی پروگرام چلتا تھا، اب دوبارہ اسی طرح کے پروگرامز کیلئے کوششیں جاری ہیں،وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اپنی مصنوعات کی کمرشلائزیشن نہیں کرتی اس لیے بہت سے ٹیکنالوجی سے لوگ نا واقف ہیں۔

سیکرٹری وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے بتایا کہ سکولوں کی سطح سے ہی سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے پاکستان سائنس فائونڈیشن قائم کی گئی ہے،جس کا مقصد بچوں کو اوائل عمر میں ہی سائنس کی طرف رجحان پیدا کرنا اور استعداد کار بڑھانا ہے،سائنس فائونڈیشن300 سے زائد سکولوں کے بچوں کوماہانہ دس ہزار سکالرشپس دے رہے ہیں، 30 سے زائد بچوں کو بیرون ملک بھی بھیجا ہے،فائونڈیشن کے تحت دور دراز علاقوں کے غریب طلباء و طالبات زیادہ سے زیادہ مستفید ہو رہے ہیں،پاکستان سائنس فورم کے قیام کیلئے تمام تر پلاننگ مکمل کر لی گئی ہے،اس مقصد کیلئے حکومت سے زمین فراہم کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔

ڈی جی پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارتی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں 36 انسپکٹرز کام کررہے ہیں اور بیس مزید شامل ہو جائیں گے،40 آئٹم پاکستان اسٹینڈڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے،اتھارٹی نے رمضان المبارک میں متعدد اشیاء کی کوالٹی چیک کر کے ناقص معیار پرمتعلقہ کمپنیوں کو جرمانے بھی کیے ہیں، اتھارٹی مینوفیکچرنگ پراسس کو نہیں صرف اسٹینڈرڈ کو چیک کرسکتا ہے،11بند کی گئیں شوگر ملوں کے مالکان نے عدالت سے رجوع کیا ہے اور اب ان کا معاملہ عدالت میں ہیں۔

پاکستان کونسل آف سائنٹیفک کے چیئرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ ہسپتالوں میں درآمد شدہ ویسٹ سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے،یہ ویسٹ مختلف ممالک سے لوٹوں،جوتوں، بچوں کے کھلونوں اورسرینجز کی وجہ سے ملک داخل ہوتے ہیں،اس ویسٹ کو تلف کرنے کیلئے انسنٹریٹر نامی ڈیوائس استعمال ہوتی ہے،حکومت نے خود ان امپورٹرز کو اجازت دے رکھی ہے۔ کمیٹی نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے فوری روک تھام کا حکم دیا ہے۔اجلاس میں کمیٹی نے وزارت سائنس وٹیکنالوجی سے کرپشن کی بنیاد پر نکالے گئے افسران کی دوبارہ بحالی پر رپورٹ طلب کرلی۔
Live رمضان المبارک سے متعلق تازہ ترین معلومات