بدقسمتی سے شعبہ تعلیم سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز کی ترجیحات میں اسٹوڈنٹ کبھی نہیں رہا، وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ

جس دن ہماری اولین ترجیح بچوں کا مستقبل ہوا اس دن بہتری کی امید کی جاسکتی ہے، اساتذہ کی تقرری انکے ڈومیسائل کی بنیاد پر ہوگی اساتذہ اپنی سہولت کے لیے ٹرانسفر کرواکر شہر آجاتے ہیں اور گاؤں کے اسکول و کالج ویران ہوجاتے ہیں، سیمینار سے خطاب

پیر 10 ستمبر 2018 22:56

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 ستمبر2018ء) سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے شعبہ تعلیم سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز کی ترجیحات میں اسٹوڈنٹ کبھی نہیں رہا، جس دن ہماری اولین ترجیح بچوں کا مستقبل ہوا اس دن بہتری کی امید کی جاسکتی ہے، اساتذہ کی تقرری انکے ڈومیسائل کی بنیاد پر ہوگی، اساتذہ اپنی سہولت کے لیے ٹرانسفر کرواکر شہر آجاتے ہیں اور گاؤں کے اسکول و کالج ویران ہوجاتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ تعلیم کے کالج ایجوکیشن کی جانب سے منعقدہ سیمینار ’’ایکسیلینس ان کالج ایجوکیشن‘‘ کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار میں سیکریٹری کالج ایجوکیشن پرویز احمد سیہڑ، آر ڈی کالجز او ر پورے صوبے کے تمام کالجز کے پرنسپلز شریک تھے۔

(جاری ہے)

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم نے کہا کہ سندھ میں تعلیم کی حالت زار ہے اور ہمیں اس پر رونا آتا ہے، تقسیم سے قبل سندھ تعلیمی میدان میں اس پورے خطے کو لیڈ کرتا تھا۔

سندھ کے بچے انگریز دور میں ممبئی مقابلہ کرنے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد محمد خان جونیجو کے دور میں تعلیمی میدان میں ڈاؤن فال آیا، اور شاید سندھ کو جمہوری جدوجہد کی سزا دی گئی، کیونکہ اس دور میں سندھ میں بہت سارے ان پڑھ اساتذہ کو شامل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں ہم اس سسٹم کو روک نہیں سکے، ہم نے اب بھی گلوبل پریشر میں آکر سوچنا شروع کیا ہے کہ تعلیمی نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔

وزیر تعلیم سردار شاہ نے کہاکہ ہماری ترجیحات میں بچہ شامل نہیں رہا، اور جب تک بچہ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہوگا تعلیم کے میدان میں بہتر ی نہیں آئے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم جہاں پڑھے ان اسکولوں اور کالیجز کو چھوڑ دیا ہے، بات اونرشپ کی ہے، جب گاؤں کے اسکول و کالج کو اون کرینگے تبھی بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہاکہ میں خود سرکاری کالج سے پڑھا ہوں کسی ایلیٹ کالج سے نہیں پڑھا، اور ہمارے دور میں کالجز میں معلوماتی سیشنز اور بہت سی سرگرمیاں ہوتی تھیں جواب نہیں ہو رہیں۔

انہوں نے کہاکہ آج بڑے لوگ اپنے بچوں کے لئے ایلیٹ اسکول ڈھونڈ رہے ہیں،جبکہ غریب طالب علم سرکاری کالج سے ہی پڑھے گا۔ میڈیا کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سردار شاہ نے کہاکہ ہم نجی سیکٹر کو روک نہین سکتے مگر انہیں ہرحال میں قانون کے تحت چلنا پڑے گا،انہوں نے کہاکہ جب ہمٴْ سوسائٹی میں ڈلیور کریں گے تبھی سوسائٹی ہمیں تسلیم کرے گی۔

ایک اور سوال کہ جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم کیوں کیمبرج کے سلیبس کو فالو کریں، کیا ہم اپنا نصاب نہین بنا سکتے، چین تو کیمبرج نہین پڑھاتا،ہمیں اپنی تاریخ و تہذیب کی عکاسی کرتااپنا نصاب بنانا ہوگا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر تعلیم نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں کاپی کلچر عام ہے، اورہمیں ہر حال میں کاپی کلچر روکنا ہوگا،تعلیمی بورڈز میں مارکس بڑھانے کی شکایات ہیں جوکہ غریب بچوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں منسٹر نہیں مینیجربن کر کام کرونگا، اور ہمیں حکمرانوں یا افسرشاہی کا نہیں بلکہ عوامی خدمت کا رویہ اختیار کرنا ہے، انہوں نے کہاکہ پورے صوبے میں خود جاؤں گا اور سسٹم میں بہتری لاکر اپنے موبائل فون پر اساتذہ کی بایو میٹرک خود چیک کروں گا۔ درائیں اثنا سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکرز نے کہا کہ ٹیچرس کی تربیت اور پروفیشنل ڈولپمینٹ کی اشہد ضرورت ہے، اسکول کالجز کو لرننگ اسپیس میں تبدیل کرنا ہے، پیڈاگاجی پر بالکل بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔

کلاسز کو انٹرایکٹو بنانا بہت ضروری ہے کیونکہ یکطرفہ لیکچر 15-20 منٹ میں ہی اسٹوڈنٹس کو بور کردیتا ہے،طلبا کو بھی سیکھنے کے عمل میں شریک کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی,انٹرنیٹ اور موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے پڑھانے کے عمل میں جدت لائی جائے۔