زیر زمین پانی نکال کر منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت

ماسوائے عوام کی خدمت کے میرا کوئی مقصد نہیں ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے کسی عہدے کی پیشکش کر کے شرمندہ نہ ہوں۔چیف جسٹس آف پاکستان

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 15 ستمبر 2018 11:52

زیر زمین پانی نکال کر منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں سے متعلق از خود نوٹس ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔15 ستمبر 2018ء) : سپریم کورٹ میں زیر زمین پانی نکال کر منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سماعت کے دوران کہا کہ دیکھنا ہو گا ایک پانی بوتل میں کتنے منرلز ہوتے ہیں۔دیکھنا ہو گا کہ منرل واٹر میں منرلز ہیں بھی یا نہیں۔ پانی بیچنے والی کمپنیاں حکومت کے ساتھ پانی کا ریٹ طے کر لیں۔

ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ 2018ء سے قبل پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں زیر زمین سے مفت پانی نکال رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ میں ایک بات بتا دوں کہ ماسوائے قوم کی خدمت کے میرا کوئی مقصد نہیں ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے کوئی عہدہ آفر کر کے شرمندہ نہ ہوں۔ میں اپنے گھر میں نکلے کا پانی اُبال کر پیتا ہوں کیونکہ میری عوام یہ پانی پیتی ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک نہ ہوتا تو شاید میں آج اعتزاز احسن کا منشی ہوتا۔جس نے ڈیم روکنے کی کوشش کی ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہو گی۔ پانی کی ڈکیتی کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ غریب آدمی آج بھی چھپڑ کا پانی پینے پر مجبور ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ روز چیف جسٹس پاکستان نے منرل واٹر کمپنیوں کی طرف سے زیر زمین پانی کے استعمال کے معاملے پر از خود نوٹس لیا۔

تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں کٹاس راج مندر کو درپیش ماحولیاتی مسائل کے کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ زمین سے پانی کھینچا جارہا ہے اور بیچے جا رہا ہے، پانی بیچنے والی کمپنیاں کوئی قیمت بھی ادا کرہی ہیں یا نہیں؟ چیف جسٹس پاکستان نے بوتلوں میں پانی بیچنے والی کمپنیوں کی طرف سے زیر زمین پانی کے استعمال کے معاملے پر از خود نوٹس لیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو ہدایات کرتے ہوئے کہاکہ بتائیں پانی بیچنے والی کمپنیاں کتنا پانی استعمال کر رہی ہیں؟ رپورٹ شام تک مل جانی چاہیے۔ چیف جسٹس نےکہا کہ اس معاملے پر مزید سماعت ہفتے کو لاہور میں ہوگی لہٰذا کراچی کی کمپنیاں بھی وہیں آجائیں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پانی اب مفت نہیں ملنا، یہ سونے کی چیز بن گئی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے عدالت کو بتایا کہ کٹاس راج کے قرب و جوار میں موجود سیمنٹ کی تین فیکٹریوں کو پانی کی فراہمی کا بندوبست کردیا گیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا علاقے میں 12 فیکٹریاں ہیں سب کے معاملات دیکھیں، کسی ایک کو ٹارگٹ نہیں کرنا، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے کہا سیمنٹ فیکٹریوں کی جانب سے زیر زمین پانی کے استعمال کا فارمولہ طے کر لیا ہے اور قیمت کا تعین کرنا باقی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا بتائیں کیا پنجاب کی تمام سیمنٹ فیکٹریاں پانی کی قیمت ادا کر رہی ہیں یا نہیں؟ پانی کی قیمت طے کرنے کے طریقہ کار سے متعلق بھی رپورٹ دی جائے۔ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کی جانب سے ایک ماہ کا ٹائم مانگنے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا ایک ماہ کیوں دیں؟ اگر آپ سے کام نہیں ہوتا تو گھر چلے جائیں، تین دنوں میں رپورٹ دیں۔

عدالت نے کٹاس راج مندر کے چشمے کے خشک ہونے کے معاملے پر تفصیلی رپورٹ بھی منگل تک طلب کرلی ہے جب کہ عدالت نے چکوال کے علاقے میں قائم دیگر فیکٹریوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی قلت کا جائزہ لینے کا بھی حکم دے دیا اور کیس کی مزید سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کردی۔ بعد ازاں چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کے ہمراہ ہندوؤں کےمقدس مقام کٹاس راج کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس اور ججز کو لوکل گورنمنٹ اور محکمہ اوقاف کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ اس بربادی کاحل بتائیں جو سیمنٹ فیکڑیوں نے کی ہے اور ضلعی انتظامیہ مجھے جواب دے۔ چیف جسٹس اور دیگر ججز نے کٹاس راج میں پانی کی کمی اور بد انتظامی پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔