تطہیر بنت پاکستان نے اپنے والد کا نام لینے سے کیوں انکار کر دیا ؟

میرے لیے میری والدہ ہی سب کچھ ہیں، میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنی والدہ کی وجہ سے ہوں۔ تطہیر نے والد کا نام نہ لینے کی وجہ بھی بتا دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 15 ستمبر 2018 13:32

تطہیر بنت پاکستان نے اپنے والد کا نام لینے سے کیوں انکار کر دیا ؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔15 ستمبر 2018ء) : 22 سال کی عمر میں اپنے کاغذات میں ولدیت کے خانے سے والد کا نام ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی تطہیر نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ''تطہیر بنت پاکستان'' لکھا۔ اور تطہیر کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ان کے تمام کاغذات میں ولدیت کے خانے میں موجود ان کے والد کا نام ہٹا دیا جائے کیونکہ وہ اپنے والد سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتیں۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوسری سماعت کے موقع پر تین رکنی بنچ کے روبرو اپنے والدین کے ہمراہ کھڑی تطہیر فاطمہ نے روتے ہوئے یہی مطالبہ پھر سے دوہرایا۔ تطہیر نے اس حوالے سے کہا کہ آج میں جس مقام پر ہوں اپنی والدہ کی وجہ سے ہوں۔ میں نے آج تک اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا اور پہلی مرتبہ عدالت میں بھی میں نے ان کی جانب دیکھنا نہیں چاہا۔

(جاری ہے)

یہ شاید پہلی اور آخری ملاقات ہو۔تطہیر اور ان کی والدہ کو شکایت ہے کہ جب میٹرک میں انہیں فارم ب بنانے کی ضرورت تھی تو والد نے انکار کیا تھا۔ تطہیر نے کہا کہ جب میٹرک میں 2009ء میں والد کو خود فون کیا تو والد نے صاف انکار کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ پہلے اپنی والدہ کے خلاف تھانے میں درخواست دو کہ وہ اچھی خاتون نہیں پھر میں تمھارے لیے سوچوں گا۔

تطہیر اب گریجویشن کر چکی ہیں۔ وہ نیشنل سطح پر سپورٹس میں بھی حصہ لیتی رہی ہیں جن میں جوڈو کراٹے اور تیراکی شامل ہیں لیکن شناختی دستاویزات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پائیں، اور اب اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانا چاہتی ہیں لیکن ان کے پاس موجود شناختی کارڈ پر ان کے والد کے گھرانہ نمبر نہ ہونے کے باعث ان کا پاسپورٹ نہیں بن پا رہا۔

تطہیر نے کہا کہ والد کا نام میری دستاویزات میں تو موجود ہے لیکن والد کا میری زندگی میں کوئی کردار نہیں۔ مجھے معلوم نہیں ماموں نے میرا شناختی کارڈ کیسے بنوایا تھا لیکن نادرا کے مطابق میرے والد نے تو اپنی اولادوں میں میرا نام نہیں لکھوایا،خاندان کے شجرے میں بھی میرا نام نہیں ہے۔تطہیر کا کیس اپنے آپ میں ایک مثالی کیس ہے کیونکہ ایسا کوئی کیس پہلے زیر سماعت رہا ہو، ایسا سننے میں نہیں آیا۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے فی الحال کوئی قانون موجود نہیں ہے۔