چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس

سینیٹر سراج الحق کے اسلام آباد میں نجی قرضہ جات کو سود سے پاک کرنے کے بل 2017 ، سینیٹر شمیم آفریدی کیخلاف ایف آئی آر ، حدید انٹرنیشنل کمپنی کو کراچی ایئر پورٹ پر غیر قانونی آپریشن کی اجازت ، منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستان کے خلاف الزامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

پیر 17 ستمبر 2018 21:07

چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سراج الحق کے اسلام آباد میں نجی قرضہ جات کو سود سے پاک کرنے کے بل 2017 ، سینیٹر شمیم آفریدی کے خلاف ایف آئی آر ، حدید انٹرنیشنل کمپنی کو کراچی ایئر پورٹ پر غیر قانونی آپریشن کی اجازت ، منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستان کے خلاف الزامات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں جنوبی وزیرستان میں فوج کے دوجوانوںکی شہادت اور بیگم کلثوم نواز کیلئے دعائے مغفرت کی گئی ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹرر حمان ملک نے کہا کہ پارلیمانی کمیشن کے قیام کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں اور اراکین کمیٹی متفق ہیں ۔

(جاری ہے)

الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو کچھ سوالات بھیجے تھے ان کے جوابات آچکے ہیں رپورٹ کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے ۔

اراکین کمیٹی کے ساتھ ملکر جائزہ لے کر رپورٹ آگے بھیجی جائے گی یہ پارٹی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کاہے اور جو غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں ان کا ازالہ کس طرح کیا جاسکتا ہے تاکہ آئندہ ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنے پڑے ۔ آدھے پولیٹکل ایجنٹس نتائج ہی نہیں بھیج سکے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو قائمہ کمیٹی کی طرف سے تیار کر دہ فارم بھیج دیا ہے جو 15 دن میں رپورٹ فراہم کریں گے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ FATF ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ پاکستان پر منی لانڈرنگ کے الزام لگائے جارہے ہیں ۔ یہ الزام منشیات پر ہوتا ہے جو افغانستان میں بہت زیادہ پیدا اور فروخت کی جارہی ہے مگر بد قسمتی سے شکار پاکستان بن رہا ہے ۔ وہاں کنڑول کیوں نہیں کیا جارہا ۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 50 ہزار شہادتوں کا نذرانہ پیش کیا مگر امریکہ نے اس کے باوجود بھی وہ صلہ نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔

قائمہ کمیٹی نے FATF کے حوالے سے ایک قرارداد بھی پاس کی جس میں قائمہ کمیٹی نے سخت نوٹس لیا کہ پاکستان کو الزامات کے حوالے سے سافٹ ٹارگٹ بنایا جاتا ہے اور FATF نے اس حوالے سے موثر اقدامات نہیں اٹھائے ۔ قرارداد میں زور دیا گیا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی موجودگی میں منی لانڈرنگ منشیات کے ذریعے کی جارہی ہے ۔ افغانستان کا زیادہ تر حصہ امریکی افواج کے کنڑول میں ہے اور کمیٹی مطالبہ کرتی ہے کہ افغانستان میں منشیات کی پیداوار اور اس کی سپلائی کو فوری طور پر ختم کیاجائے اور پاکستان پر الزام تراشی بند کی جائے ۔

اسلام آباد میں نجی قرضہ جات کو سود سے پاک کرنے کے حوالے سے سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ یہ بل صوبہ پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے منظور ہو چکا ہے ۔ نجی قرضہ جات پر سود کی ممانعت آئین پاکستان میں بھی درج ہے ۔ اسٹیٹ بنک نے غیر سودی کاروبار شروع کر دیا ہے اور11 فیصد غیر سودی کاروبارکیا جارہاہے ۔ رکن کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ یہ پورے ملک کے لئے ہونا چاہیے ۔

سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ وزارت قانون سے پہلے رائے حاصل کی جائے ۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پیمنٹ سود کو بھی ختم کیا جائے اور اس بل میں سود در سود کو بھی شامل کیاجائے جس پر چیئرمین کمیٹی نے وزارت قانون ، اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت خزانہ سے 10 دن کے اندرتجاویز رپورٹ طلب کر لی ۔ سینیٹر شمیم آفریدی کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

سینیٹر شمیم آفریدی نے کہاکہ ان کے ہجرے کے قریب دو گروپوں میںلڑائی ہوئی اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ۔ قائمہ کمیٹی نے آئی جی اور ڈی آئی جی کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا۔ خیبر پختونخواہ پولیس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سینیٹر شمیم آفریدی اور ان کے رشتہ داروں کا آپس میں جھگڑا ہو اکئی افراد زخمی ہیں اور زخمی افراد نے سینیٹر شمیم آفریدی کے خلاف بیان دیا جس پر قائمہ کمیٹی نے سینیٹر رانا مقبول احمد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دے کر 10 دن میں رپورٹ طلب کر لی۔

کمیٹی ممبران میں سینیٹرز محمد عتیق شیخ اور سردار محمد شفیق ترین شامل ہیں ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ ایک غیر ملکی کمپنی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کراچی ایئر پورٹ پر کینٹین اور لائونج کی اجازت دی ۔ ڈی جی سول ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے این او سی جاری کیا تھا ۔ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کیا گیا اور سرمایہ کاری بورڈ نے اپریشن کی اجازت دی ۔

جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سول ایوی ایشن ایک غیر ملکی کمپنی کو اتنے حساس علاقے میںکام کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے اورکس قانون کے تحت اجازت دی گئی جو ایک کینٹین سے شروع ہو کر آپریشن تک پھیل گئی ہے ۔ ملک کی سیکورٹی کو دائو پر لگایا گیا ہے۔قائمہ کمیٹی نے وزارت داخلہ سے تین ہفتوں میں انکوائری رپورٹ طلب کر لی ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر جاوید عباسی نے سیٹزن کلب کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ چار سال سے یہ کلب اپریشنل نہیں کیا گیا جس پر قائمہ کمیٹی نے معاملہ ایف آئی اے کو بھیج کرتین ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ وزارت داخلہ کو پروٹوکول اور سیکورٹی میں واضح فرق رکھنا چاہیے ۔ وزیراعظم پاکستان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کئی رہنمائوں کو سیکورٹی تھریٹ ملے ہیں ۔

کمیٹی ہدایت کر تی ہے کہ تمام پارلیمنٹرینز اور وی آئی پی حضرات کو بلیو بک کے مطابق سیکورٹی فراہم کی جائے ۔ پروٹوکول نہ لینا ایک علیحدہ بات ہے مگر ملک کے اہم رہنمائوں کی زندگیوں کو دائو پر لگانا دانشمندی نہیں ہے ۔ وزارت داخلہ قانون کے مطابق سیکورٹی کو موثر کرے ۔ موثر سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے یہ قوم شہید لیاقت علی خان ، بے نظیر بھٹو ، بلور خاندان اور رئیسانی جیسے حب وطن رہنمائوں سے محروم ہو چکا ہے ۔

پاکستان کو داعش طالبان ، القائد اور دیگر انسانیت و امن دشمن تنظیموں سے دھمکیاں مل چکی ہیں ۔ حکومت کا کام اپنے سمیت عوام کی حفاظت و امن کو برقرار رکھنا ہے ۔وزیراعظم ایک مقام کا نام ہے وزیراعظم ہائوس کو وزیراعظم ہائوس ہی رہنا چاہیے ۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز محمد جاوید عباسی ، کلثوم پروین ، رانا مقبول حسین ، محمد اعظم خان سواتی ، محمد عتیق شیخ ، سردار محمد شفیق ترین ، سراج الحق اور شمیم آفریدی کے علاوہ سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر ،ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ مہر حامد خان، ڈی جی خارجہ امور ، جوائنٹ سیکرٹری خزانہ ، ڈی جی سول ایوی ایشن ، ڈائریکٹر ایف آئی اے ،ڈی جی نیوٹیک ، ایس پی راول ٹائون راولپنڈی ، ایڈیشنل کمشنر اسلام آباد و دیگر حکام نے شرکت کی ۔