این آراوکیس: آصف زرداری نے29اگست کا فیصلہ چیلنج کردیا

سپریم کورٹ نے آصف زرداری سے منقولہ غیرمنقولہ جائیداد کی تفصیلات طلب کی تھیں،آصف زرداری نیب کیسز سے پہلے بری ہوچکے ہیں،قانون کے تحت اب اثاثوں کی پرانے تفصیلات نہیں مانگی جاسکتیں۔سابق صدرآصف زرداری کی سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 18 ستمبر 2018 15:18

این آراوکیس: آصف زرداری نے29اگست کا فیصلہ چیلنج کردیا
اسلام آباد(اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔18ستمبر 2018ء) سابق صدرمملکت اور رکن قومی اسمبلی آصف زرداری نے این آراو کیس سے متعلق سپریم کورٹ کا 29اگست کا فیصلہ چیلنج کردیا ہے،آصف زرداری نیب کیسز سے پہلے بری ہوچکے ہیں،قانون کے تحت اب اثاثوں کی پرانے تفصیلات نہیں مانگی جاسکتیں،صرف الیکشن ایکٹ کے تحت تفصیلات مانگی جاسکتی ہیں،سپریم کورٹ اپنے فیصلے پرنظرثانی کرے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے این آراو کیس سے متعلق فیصلہ چیلنج کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے این آراو کیس سے متعلق فیصلہ 29کوسنایا تھا۔ آصف زرداری نے این آر اوکیس سے متعلق فیصلے پرنظرثانی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔درخواست کے متن میں کہا گیا کہ آصف زرداری نیب کیسز سے پہلے بری ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)

آصف زرداری سے اثاثوں کی تفصیلات مانگنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔قانون کے تحت کسی شخص کے ماضی کے اثاثوں کی تفصیلات نہیں مانگی جاسکتیں۔آصف زرداری سے صرف الیکشن ایکٹ کے تحت اثاثوں کی تفصیلات مانگی جاسکتی ہیں۔آصف زرداری نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پرنظرثانی کرے۔ واضح رہے 29اگست کوسپریم کورٹ نے این آراو کے حوالے سے کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی کومبہم قرار دیتے ہوئے سابق صدر سے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی دس سالہ تفصیلات طلب کرنے کا حکم دیا تھا، عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے بیان حلفی بھی مسترد کرتے ہوئے ان سے اندرون وبیرون ملک منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے علاوہ بیوی اور بچوں کے نام اثاثوں کی تفصیلات بھی مانگی تھیں۔

29اگست بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اورجسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے این آراو کے باعث قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لئے دائر درخواست کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے گزشتہ روز جمع کرائے گئے بیان حلفی کاجائزہ لینے کے بعد اسے مبہم یعنی غیر واضح قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بیان حلفی کے مطابق ان کی آج کے روز تک یہ جائیدادیں ہیں، ان مبہم الفاظ سے یہ بیان حلفی مشکوک ہو جاتا ہے۔

آصف علی زرادری نے اس بیان حلفی میں پاکستان میں بھی اپنے اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا، اس لئے عدالت ہدایت کرتی ہے کہ سابق صدرعدالت کو 2007ء تا 2018ء تک کے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرکے نیا بیان حلفی جمع کرائیں کہ ان کی بالواسطہ ،بلاواسطہ یا ٹرسٹ کے ذریعے کوئی اور ملکیت نہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ سابق صدر اپنے بچوں اور اپنی مرحوم اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹوکے بینک اکائونٹس کی تفصیلات بھی عدالت کوفراہم کریں۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کاکہناتھا کہ دنیا میں جائیداد چھپانے کے بہت سے طریقے آگئے ہیں، اب یہ معاملہ ڈالر سے نکل کر بٹ کوئن تک پہنچ گیا ہے، لوگ اپنے اثاثے ٹرسٹ اور آف شور کمپنیوں کے نام کرکے چھپاتے ہیں، سابق صدرآصف علی زرادری کا بیان حلفی مکمل نہیں ، وہ واضح طور پر عدالت کوآگاہ کریں کہ وہ کسی جائیداد کے بنفشری نہیں۔

سماعت کے دوران سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے اعتراض پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سابق صدر کا ٹرائل نہیں کرنا چاہتے ، ہمیںصرف اثاثوں کی تفصیلات بتائی جائیں، ہم چاہتے ہیں کہ بطور قومی رہنما آپ کے موکل کوصاف اورشفاف ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے فاضل وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے بارے تمام تفصیلات جان سکیں۔

سماعت کے دوران درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی نے زردادری کے بیان حلفی پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق اگرسابق صدر کے بیرون ملک منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد نہیں تو پھر سوئس اکائونٹس میں موجود 60 ملین ڈالر کہاں گئے، جس پر سابق صدر کے وکیل نے کہاکہ ان کے موکل کیخلاف پہلے بھی مقدمات چلائے گئے لیکن کچھ ثابت نہیں ہوا، ا نہوں نے 9 سال قید بھی کاٹی ہے جس کا انہیں کچھ صلہ تو ملنا چاہیے، آخر کب تک وہ ان پرانے الزامات کا سامنا کریں گے،اگر آج ہم نے عدالت میں کچھ جمع کرایا تو ایک اور انکوائری شروع ہوجائے گی پہلے وہ سالوں تک تین مقدمات بھگتنے کے بعد بری ہوئے ہیں، جس پرچیف جسٹس نے ان سے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کلئیرنس کی صورت میں ہی ان کوصلہ مل سکتا ہے،9 سال جیل میں رہ کر اثاثے ڈکلئیر نہیں کیے جا سکتے، ہیمںیہ بتایا جائے کیا آصف زرداری کاسوئیٹزرلینڈ میں اکاونٹ تھا یا نہیںاور کیا بے نظیر بھٹو شہید یا بچوں کے نام پر وہاں کوئی اکائونٹ تھا ،جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ وہ آصف زرداری سے معلوم کر کے عدالت کو آگاہ کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سابق صدر پر مقدمہ نہیں چلانا چاہتے عدالت کو رضاکارانہ طور پر تفصیلات فراہم کی جائیں ، اگر سابق صدر کو اپنی شہید اہلیہ کے بینک اکائونٹس کے بارے علم نہیں تو اس حوالے سے عدالت کو تحریر ی صورت میں آگاہ کیا جائے کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے، ہمیں سوئٹزلینڈ میں موجود بینک اکائونٹس کے بارے بھی بتایا جائے کہ وہ کس کے ہیں۔

سماعت کے دوران سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے سابق صدر کا غیر مصدقہ بیان حلفی عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایاکہ ان کے موکل کا دوبئی میں ایک اپارٹمنٹ ہے جس کی مالیت پانچ اعشاریہ چار ملین درہم ہے ، اس طرح ان کی ملکیت میں تین گاڑیاں بھی ہیں، جن میں ایک مرسڈیز کار 2015 ء ماڈل ،امپلا کار 2018ء ماڈل اور 2017 ء ماڈل کی طوئی جیپ شامل ہیں۔

اختر شاہ نے مزید بتایا کہ پرویز مشرف کا یونین نیشنل بینک دبئی کے اکائونٹ میں 92 ہزار ایک سو درہم اور یونائیٹڈ بینک لندن کے اکائونٹ میں 21ہزار 550پائونڈ پڑے ہیں جبکہ دانا گیس میں ان کے دو لاکھ 68ہزار 653درہم کے شیئرز ہیں جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کوبتایا جائے کہ کیا مشرف ساری زندگی کی تنخواہ سے فلیٹ لے سکتے تھے، اپنے موکل سے کہیں کہ خودعدالت میں پیش ہوکر وضاحت کردیں،انہیں توسعودی حکومت سے تحفے بھی ملے تھے ان کے بارے میں بھی بتایا جائے ، جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ مشرف کے غیر ملکی اثاثے صدارت چھوڑنے کے بعد کے ہیں ، انھوں نے لیکچر دینے کے ساتھ دیگر ذرائع سے یہ اثاثے کمائے ہیں چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا لیکچر دینے کے اتنے پیسے ملتے ہیں اگرایسا ہے توکیوں نہ میں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد لیکچر دینا شروع کردوں، ہمیں بتایا جائے کہ چک شہزادفارم ہائوس کس کا ہے جس پر وکیل نے بتایاکہ وہ سابق صدر کا ہے۔

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ پرویز مشرف سے کہیں کہ وہ پاکستان میں موجود اپنے اور اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں۔ جس پر سابق صدر کے وکیل کاکہناتھا کہ ان کے موکل تمام اثاثے ظاہر کریں گے ہم کچھ بھی نہیں چھپائیں گے، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ سابق صدر دس روزمیں پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنے تمام اثاثوں کے علاوہ اپنے بیوی بچوں کے نام جائیدادوں کی تفصیلات کے ساتھ بیان حلفی جمع کرائیں، عدالت نے اثاثے ظاہر کرنے کے حوالے سے عدالتی حکم کی روشنی میں ملک قیوم کے وکیل وسیم سجاد کے اعتراض کو مسترد کیا اورانھیں بھی تین ہفتوں میں اثاثوں کی مکمل تفصیلات کے ساتھ بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا اور واضح کیا کہ آپ کے موکل ہائی کورٹ کے جج اور اٹارنی جنرل رہے ہیں، ان کیخلاف اس وقت بھی اختیار سے تجاوزکے بارے میں ایک کیس زیر التوا ہے ،بعدازاں عدالت نے مزید سماعت تین ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔