اسلام آباد ہائی کورٹ میں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا کی معطلی کے لئے درخواست کی سماعت

نیب پراسیکوٹر کو (کل )بدھ تک دلائل مکمل کرنے کا حکم ، دلائل مکمل نہ بھی ہوئے تو (کل ) فیصلہ سنا دیا جائے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ

منگل 18 ستمبر 2018 20:03

اسلام آباد ہائی کورٹ میں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 ستمبر2018ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ،ان کی صاحبزادی مریم نواز اور سابق ممبر قومی اسمبلی کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا کی معطلی کے لئے دائر درخواست پر سماعت (کل )بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے نیب پراسیکوٹر کو دلائل مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔عدالت عالیہ کے جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کیا ہے کہ اگر سزا معطلی کی درخواستوں پر نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل نہ بھی ہوئے تو (کل )بدھ کو فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا کی معطلی کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا کہ اس کیس کو اتنے مختصر وقت میں تفتیش کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اس مرحلے پر عدالت کا کوئی بھی تبصرہ مناسب نہیں ہوگا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ نے بہت اچھی بات کہی ہے ۔

نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ جس کے قبضے میں جائیداد ہے ملکیت کا بار ثبوت اس پر ہے، بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں، لندن اپارٹمنٹس کا قبضہ بچوں کے پاس تھا، باپ بچوں کا نیچرل سرپرست ہے جس کے قبضے میں جائیداد ہے ملکیت کا بار ثبوت اس پر ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا والد اور سرپرست ہونے کی وجہ سے بار ثبوت ان پر ہے اور یہ کہتے ہیں حسن اور حسین ہی بتا سکتے ہیں، اخراجات ریکارڈر پر نہیں ہیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کہتے ہیں کہ آمدن سے متعلق چارٹ واجد ضیاء نے پیش نہیں کیا، تفتیشی افسر نے بھی کہا تھا معلوم نہیں یہ چارٹ کس نے تیار کیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'بوگس ٹرسٹ ڈیڈز بنائی گئیں جس پر فاضل جج نے استفسار کیا کہ 'کیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز وہاں پر رجسٹرڈ ہوئیں'نیب پراسیکوٹر اکرم قریشی نے جواب دیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز صرف بھائیوں کو بتانے کی حد تک تھیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اب مفروضے پر فوجداری قانون میں سزا سنا دیں ، یہ مفروضہ کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اگر جائیداد نواز شریف کی ہے تو مریم نواز کو 9 اے 5 میں سزا کیسے ہوگئی۔جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا 'دو طرح کی ملکیت ایک ہی وقت میں کیسے ہوسکتی ہے، یا وہ ظاہری مالک ہیں یا حقیقی مالک ہیں' جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ مریم نواز نے معاونت کی ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا جسٹس میاں گل حسن کا سوال یہ ہے کہ دونوں کو ایک ہی فرد جرم میں تو سزا نہیں ہوسکتی، نواز شریف اور مریم نواز کو ایک ہی فرد جرم میں سزا کیسے سنا دی گئی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا 'بیٹی کو سیکشن 5 کے تحت سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی، کیا مریم کے اثاثے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'جی ہاں۔سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم پہلے ہی وقت ضائع کر چکے ہیں ۔سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ انتہائی اہم کیس ہے، آج ختم کردیتے تو اچھا ہوتا، اس کیس کے لیے ہم پورا دن لیتے ہیں۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر چیز کی حد ہوتی ہے، آپ نے تحریری دلائل دے دیے ہیں، (آج )بدھ کو اگر آپ نہ بھی آئے تو ہم ان دلائل کی بنیاد پر فیصلہ سنادیں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا 'آپ نے بہت اچھے دلائل دے دیے ہیں، اگر آپ نہ بھی ہوئے تو جہانزیب بھروانہ دلائل دیں گے اورآج دلائل مکمل نہ ہوئے تو پھر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔عدالت نے مذید سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کردی۔