Live Updates

صنعتوں کے لئے گیس کی قیمتوں میں 30سے 40فیصد اضافہ سے کاروباری لاگت میںشدید اضافہ ہوگا،میاں زاہد حسین

بدھ 19 ستمبر 2018 19:15

صنعتوں کے لئے گیس کی قیمتوں میں 30سے 40فیصد اضافہ سے کاروباری لاگت میںشدید ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2018ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کے پاکستانی صنعتوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے وژن کے پیش نظرضمنی بجٹ سے عوام بالخصوص سرمایہ کاروں، صنعتکاروں اور تاجروں کی بڑی توقعات وابستہ تھیں ۔

لیکن گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سامنے آیا، جس سے مقامی صنعتوں کی کاروباری لاگت میں شدیداضافہ ہوگا اور اسمگلنگ میں اضافہ ہوگا۔ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لئے بھی کوئی قدم سامنے نہیں آسکا، جس سے موجودہ ٹیکس دہندگان کے خدشات میں اضافہ کے ساتھ نان فائلرز کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو وزیر اعظم کے وژن کے سراسر خلاف ہے۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میںکہا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کے لئے خام مال پر ڈیوٹی استثناء اور گیس کی قیمتوں میںاضافہ نہ کرنے کے باعث 50ارب روپے کا ریلیف خوش آئند ہے ،برآمدی سیکٹر میں استعمال ہونے والے 82اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی گئی تاہم برآمدات بڑھانے کے لئے برآمدکنندگان کے اشتراک سے مزید اقدامات ناگزیر ہیں۔

حکومتی محصولات کا ہدف 10فیصد بڑھا کر 4,435ارب کردیا گیا۔ریونیو کے اقدامات کے ذریعے 183ارب روپے کی آمدنی ہوگی جس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے 92ارب روپے کا اضافہ شامل ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ کراچی انفراسٹرکچر ڈولپمنٹ کمپنی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 50ارب روپے حاصل کرے گی جس کو کراچی کی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا، نیشنل ہائی وے اتھارٹی انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر 100ارب روپے خرچ کرے گی۔

70ہزار صاحب ثروت تنخواہ دار افراد پر ٹیکس کی شرح 25فیصد جبکہ 5لاکھ سے زائد آمدنی والے افرادکے لئے ٹیکس کی شرح 29فیصد کی گئی۔ وفاقی وزراء اور صوبائی گورنروں کو مراعات پر حاصل ٹیکس استثناء ختم کردیا گیا۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ نان فائلرز کے لئے بینکنگ ٹرانزیکشن پر ٹیکس 0.4فیصد سے بڑھا کر 0.6فیصد کیا گیا، جس سے بینکنگ چینلز کے استعمال میں کمی ہوگی اور نقد لین دین میں اضافہ ہوگا۔

نان فائلرز کو جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری کا اختیاردوبارہ دے دیا گیا، جس سے ٹیکس بیس بڑھنے کے امکانات معدوم ہونگے اور سرمایہ صنعت کاری کے بجائے جائیداد کی خریدوفروخت میں استعمال ہوگا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام میں 160ارب روپے کی کمی کردی گئی ہے۔ ترقیاتی بجٹ کم کرنے سے ملکی ترقی کے پروگرام کو شدید خدشات لاحق ہونگے اور معاشی و اقتصادی ترقی پر جمود طاری ہوگا۔

پاکستان کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملکی معیشت کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اقدامات کئے جائیں ۔مہنگے موبائیل فونز، سیگریٹ اور لگژری گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی بڑھانے سے اگرچہ عام طبقے پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا لیکن اسمگلنگ میں اضافہ ہوگا،جس کوروکنے کے لئے کڑے اقدامات کرنا ہونگے۔میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ پاکستان کودرپیش تجارتی خسارے اور زرمبادلہ کی شدید کمی کے مسائل سے عہدہ برا ہونے کے لئے ضمنی بجٹ میں تجویز کردہ اقدامات سے مسائل حل نہیں ہونگے۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ پبلک سیکٹر آرگنائزیشز جو سالانہ 600ارب روپے کے خسارے کا باعث ہیں ان کو درست کیا جائے اور ایکسپورٹ میں اضافے کے لئے ترغیبات کے ساتھ ساتھ سیکٹر اسپیسفیک کمپنیاں قائم کی جائیں۔گیس، بجلی کی چوری اور لائن لاسز میں ہونے والے 700ارب روپے کے خسارے کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیںتو مزید ٹیکس عائد کرنے یا کشکول پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات