ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز پارٹی پر پابندی

پچھلے دو سال سے سرگرم یہ گروپ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے کے لیے تیار تھا

پیر 24 ستمبر 2018 21:08

بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 ستمبر2018ء) برطانیہ کی جانب سی1997میں ہانگ کانگ کا انتظام چین کے حوالے کیے جانے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جمہوریت کے لیے سرگرم ایک سیاسی جماعت پر اس طرح پابندی عائد کی جا رہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ہانگ کانگ کے سیکرٹری برائے سکیورٹی جان لی نے اس بارے میں اعلان پیر کو کیا۔ ہانگ کانگ نیشنل پارٹی پر یہ پابندی سوسائٹیز آرڈیننس کے تحت لگائی گئی ہے جو اس دور کا ایک قانون ہے جب ہانگ کانگ ایک کالونی ہوا کرتا تھا۔

اس قانون کے تحت تمام سیاسی تنظیموں کا پولیس کے پاس اندارج لازمی ہے۔ یہ قانون حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ قومی سلامتی کے مفاد میں یا دیگر شہریوں کی آزادی و حقوق کے تحفظ کے لیے کسی گروپ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

جان لی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران بتایا کہ پچھلے دو سال سے سرگرم یہ گروپ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے کے لیے تیار تھا اور یہی وجہ ہے کہ یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

لی نے کہاکہ ان کا واضح ہدف یہ ہے کہ ہانگ کانگ کو ایک ری پبلک بنایا جائے۔سرکاری عہدیدار کے مطابق یہ گروپ چین کے خلاف نفرت پھیلانے کا مرتکب بھی پایا گیا ہے۔ ہانگ کانگ میں بیان دیتے ہوئے جان لی نے مزید کہا کہ حکومت خود مختاری کے لیے سرگرم دیگر گروپوں کے خلاف کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتی۔ہانگ کانگ میں یہ جمہوریت نواز تحریک گو کہ عوامی سطح پر زیادہ مقبول نہیں تاہم جولائی میں بیجنگ حکومت کی جانب سے اس پر ممکنہ پابندی کے اعلان کے بعد گروپ کے سربراہ اینڈی شین کافی مقبول ہو گئے۔

ہانگ کانگ کو در اصل ایک ملک دو سسٹم کے تحت چلایا جاتا ہے۔ یوں تجارتی و اقتصادی سرگرمیوں کے لیے دنیا بھر میں معروف یہ مقام چین کے اثر و رسوخ میں بھی ہے اور چند معاملات میں کچھ حد تک خود مختار بھی۔