Live Updates

میثاق معیشت پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے‘ کالا باغ ڈیم وفاقی اکائیوں کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتا‘ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو صارفین شدید متاثر ہوں گے، کھادیں مہنگی ہوں گی‘ سی پیک منصوبے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے خلاف ہم دیوار چین ثابت ہوں گے‘

ہم تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح پر یقین رکھتے ہیں‘ حکومت نے اچھے اقدامات اٹھائے تو بھرپور تعاون کریں گے، بھارت کے ساتھ تعلقات اپنی جگہ پر ہیں لیکن کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، مغرب کے ضمیر کو بھی جگانے کی ضرورت ہے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کا ضمنی مالیاتی (ترمیمی) بل 2018ء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اظہار خیال

پیر 24 ستمبر 2018 22:46

میثاق معیشت پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے‘ کالا باغ ڈیم وفاقی اکائیوں کی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2018ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے میثاق معیشت پر اتفاق رائے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ صرف اس طرح ہی ہم ایک فعال معیشت اور فلاحی ریاست کی طرف عملی قدم بڑھا سکتے ہیں‘ کالا باغ ڈیم وفاقی اکائیوں کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتا‘ بھارت کے ساتھ تعلقات میں جلد بازی کی ضرورت نہیں‘ منی بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا‘ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو صارفین شدید متاثر ہوں گے اور غریب کاشتکار طبقہ کے لئے کھادیں مہنگی ہوں گی جس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے‘ سی پیک منصوبے پر نئی حکومت نے ابہام پیدا کیا‘ سی پیک منصوبے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے خلاف ہم دیوار چین ثابت ہوں گے‘ ہم تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح پر یقین رکھتے ہیں‘ حکومت نے اچھے اقدامات اٹھائے تو بھرپور تعاون کریں گے، بھارت کے ساتھ تعلقات اپنی جگہ پر ہیں لیکن کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، مغرب کے ضمیر کو بھی جگانے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

پیر کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے ضمنی مالیاتی (ترمیمی) بل 2018ء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن 2018ء میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کرنا خوش آئند ہے، ہم یہاں جمہوریت کی شمع روشن کرنے کے لئے آئے ہیں، اپوزیشن اس سلسلے میں مکمل تعاون کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں ہمیں دہشت گردی اور بدترین لوڈشیڈنگ کے چیلنجز ملے جن پر اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے قابو پایا۔

ہم نے پاور جنریشن منصوبے ریکارڈ مدت میں مکمل کرائے، تاریخ کا سب سے بڑا زرعی پیکج دیا‘ کسانوں کو بلا سود اربوں روپے کے قرضے دیئے گئے۔ سستی زرعی مداخل فراہم کی گئیں۔ کاشتکاروں کو ارزاں نرخوں پر بجلی فراہم کی گئی۔ پنجاب میں فرانزک لیب قائم کی۔ یہ وہ سنگ میل ہیں جو ہم نے نواز شریف کی قیادت میں عبور کئے ہیں۔ انہوں نے 2018ء کے انتخابات پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ الف لیلوی داستانیں سنائی گئیں اور ہوا میں قلعے تعمیر کئے گئے۔

انہوں نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کے ساتھ بات چیت اور سادگی کے نام پر پروٹوکول کے خاتمے کے حوالے سے بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ چین ہمارا آزمودہ دوست ہے، اس کے وزیر خارجہ کا سردمہری سے استقبال کیا گیا۔ سی پیک منصوبے کے حوالے سے ابہام پیدا کیا گیا، یہ منصوبہ ملک کی ترقی و خوشحالی کی بنیاد اور معاشی ترقی کا سنہری موقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ 50 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے اس میں 38 ارب ڈالر کے بجلی کے منصوبے ہیں، 33 ارب ڈالر کے بجلی کے منصوبے سرمایہ کاری ہیں، اس میں سود کا عمل دخل نہیں ہے۔ سی پیک منصوبہ میں حائل رکاوٹوں کے راستے میں ہم دیوار چین ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی بجٹ کے ذریعے عوام پر مہنگائی کا بم گرایا گیا ہے، گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قیمتیں دس فیصد سے 143 فیصد تک بڑھا دی گئی ہیں اس سے غریب آدمی کا چولہا ٹھنڈا ہوگا اور اس کے لئے دو وقت کی روٹی مشکل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سالہ دور میں اس طبقہ کے لئے ایک روپیہ بھی اضافہ نہیں کیا۔ گیس کے نرخوں میں اضافے سے کھاد مہنگی ہوگی۔ ہم نے اپنے دور میں کاشتکاروں کو اربوں روپے کی سبسڈی دی۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ سی پیک کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قومی گرڈ میں پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جو منصوبے پاکستان کو دیئے وہ سستے ترین تھے اور برق رفتاری سے مکمل ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں 57 فیصد اضافے سے بجلی کی قیمتوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے جس سے براہ راست عام صارف متاثر ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت بھی متاثر ہوگی اور برآمدات متاثر ہوں گی۔ اس وقت وافر مقدار میں بجلی موجود ہے لیکن قیمت بڑھانے سے معیشت پر اثرات سامنے آئیں گے۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لیا جائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ موجودہ حکومت کو ان چیلنجز کا سامنا نہیں ہے جن چیلنجز کا سامنا 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو تھا، ہم نے بحرانوں پر قابو پایا اور حکومت‘ سیکیورٹی اداروں اور عوام کی مشترکہ حمایت اور قربانیوں سے دہشتگردی پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ جو منی بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں تنخواہ دار طبقے کے لئے ٹیکس سلیب میں اضافہ کیا گیا۔

منی بجٹ میں 183 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جن میں سے 70 ارب سے زائد بالواسطہ ٹیکس ہیں۔ حالانکہ ماضی میں وزیر خزانہ اسد عمر خود بالواسطہ ٹیکسوں کی مخالفت کرتے چلے آئے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرانے ٹیکس گزاروں پر نئے ٹیکس لگا کر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 29 فیصد کردی گئی۔

حکومت نے ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ حکومت نے گاڑیوں کی خریداری پر نان فائلر کے لئے پابندی ختم کرکے ٹیکس چوری کا راستہ کھول دیا ہے۔ ہماری سوچ یہ تھی کہ ٹیکس کی شرح کم کرکے ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دی جائے۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ بیرون ممالک سے 200 ارب ڈالر لانے کے دعوے تھے تاہم ابھی تک ایک ڈالر بھی باہر سے لانے کا اشارہ نہیں ملا۔

2013ء میں ٹیکس جمع کرنے کا حجم 2.2 ٹریلین تھا۔ 2017ء میں اس کا حجم 3.9 تک پہنچ چکا تھا۔ وزیر خزانہ نے ٹیکس جمع کرنے کے حجم میں اضافے کی بات کی ہے‘ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں لیکن پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں جب ہمیں اقتدار ملا تو گردشی قرضے کا حجم 503 ارب روپے تھا جبکہ اس کے مقابلے اوسطاً بجلی کی پیداوار 13 ہزار میگاواٹ تھی۔

جب ہم نے 31 مئی 2018ء کو اقتدار چھوڑا تو گردشی قرضے کا حجم 496 ارب روپے تھا تاہم یومیہ پیداوار 21 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دور اقتدار میں پی ایس ڈی پی کو 300 ارب سے بڑھا کر 800 ارب روپے سالانہ کردیا تھا۔ موجودہ حکومت نے اس میں کمی کرکے 575 ارب روپے کردیا ہے۔ 225 ارب روپے کی کٹوتی بہت بڑی رقم ہے اس سے نہ صرف تعلیم‘ انفراسٹرکچر اور دیگر شعبوں پر اثرات مرتب ہوں گے بلکہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ملک میں نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہو رہی ہے اس پر کوئی اختلاف رائے نہیں‘ نئے ڈیموں کی تعمیر میں کالا باغ ڈیم کا بھی ذکر ہو رہا ہے جس کے اقتصادی فوائد کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے لیکن پاکستان ایک وفاق ہے۔ کالا باغ وفاقی اکائیوں کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتا۔ اکائیوں کی مرضی کے بغیر کالا باغ ڈیم پر پیشرفت وفاق کے ساتھ ظلم ہوگا۔

ہمیں داسو اور دیگر ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے۔ سابق حکومت نے 122 ارب روپے خرچ کرکے بھاشا ڈیم کے لئے اراضی حاصل کی۔ موجودہ بجٹ میں بھی دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے 23.6ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پی ایس ڈی پی میں جو کٹوتی ہوئی ہے وہ رقم بھاشا ڈیم کے لئے دی جائے‘ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں پر سیاست نہیں ہو سکتی‘ جہاں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا جس طرح 2007ء میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تھے اسی طرح میثاق معیشت پر دستخط کی ضرورت ہے۔

میری ایوان سے گزارش ہے کہ آئیں ایک میثاق معیشت پر دستخط کرتے ہیں تاکہ ہم ایک فعال معیشت اور فلاحی ریاست کی طرف عملی قدم بڑھا سکیں۔ اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھنا چاہیے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اپنی جگہ پر ہیں لیکن کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ آج ہندوستان کی فوج کی چیرہ دستیوں اور ظلم و زیادتی کی انتہا ہو چکی ہے۔ ہمیں مغرب کے ضمیر کو بھی جگانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں اچھی ہیں لیکن جلد بازی دکھانے کی ضرورت نہیں۔
Live وزیراعظم شہباز شریف سے متعلق تازہ ترین معلومات