ملک کا پیسہ لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والوں کے خلاف حکومت نے ٹاسک فورس قائم کردی ہے‘

ٹیکس چوروں کے لئے اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘ ہم نے فنانس بل میں امیر ترین طبقات کے لئے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا ہے‘ کھادوں پر سبسڈی بھی دینی پڑی تو غریب کاشتکار کو متاثر نہیں ہونے دیں گے‘ سی پیک منصوبے پر سیاست نہ کی جائے‘ گردشی قرضے 1180 ارب تک پہنچ گئے ہیں‘ گیس کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش اوگرا نے کی ہے‘ گیس کے شعبے میں 154 ارب روپے کا خسارہ ہمارے دور میں نہیں سابق دور میں ہوا ہے‘ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ بڑی معیشت ہونے کی بناء پر پاکستان کو اپنی دھونس سے دبا سکتا ہے تو یہ درست نہیں ہے‘ کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

پیر 24 ستمبر 2018 22:47

ملک کا پیسہ لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والوں کے خلاف حکومت نے ٹاسک ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2018ء) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک کا پیسہ لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والوں کے خلاف حکومت نے ٹاسک فورس قائم کردی ہے‘ ٹیکس چوروں کے لئے اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘ ہم نے فنانس بل میں امیر ترین طبقات کے لئے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا ہے‘ کھادوں پر سبسڈی بھی دینی پڑی تو غریب کاشتکار کو متاثر نہیں ہونے دیں گے‘ سی پیک منصوبے پر سیاست نہ کی جائے‘ گردشی قرضے 1180 ارب تک پہنچ گئے ہیں‘ گیس کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش اوگرا نے کی ہے‘ گیس کے شعبے میں 154 ارب روپے کا خسارہ ہمارے دور میں نہیں سابق دور میں ہوا ہے‘ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ بڑی معیشت ہونے کی بناء پر پاکستان کو اپنی دھونس سے دبا سکتا ہے تو یہ درست نہیں ہے‘ کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔

(جاری ہے)

پیر کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بجٹ کے حوالے سے خیالات کا ذکر کیا مگر یوں لگتا ہے کہ ان کو بجٹ کے حوالے سے درست انداز میں نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک میں شامل تمام توانائی کے منصوبوں پر 75 فیصد قرضہ اور 25 فیصد ایکویٹی ہے۔

یہ کہنا درست نہیں کہ ان قرضوں پر سود شامل نہیں ہے‘ سود کم ہے مگر سود کا عنصر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب عوام کے لئے ٹیکس کی قیمتیں صرف 10 فیصد تک بڑھائی ہیں امیر ترین لوگوں پر 143 فیصد تک بڑھائی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گیس کے سسٹم پر اوگرا نے 154 ارب روپے کے خسارے کی نشاندہی کی ہے۔ یہ خسارہ ہم نے نہیں سابق حکومت کا پیدا کردہ ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ میری تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے۔

جس وقت کی تقریر دکھائی جارہی ہے 4 جون 2017ء میں 47 ڈالر فی بیرل تھی اور گزشتہ جمعہ کو 78 ڈالر فی بیرل تھی۔ اسی طرح ڈالر کی قیمت بھی 125 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ ہم نے ایل پی جی سلنڈر پر ٹیکس 30 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھنے سے پیدا ہونے والے اثرات کسان پر نہیں آنے دیں گے۔ اس کے لئے ہمیں سبسڈی دینا پڑی تو دیں گے۔

ملک میں خریف کی فصل کے لئے یوریا کھاد کی کمیابی کی صورتحال تھی اور فی بوری کی قیمت 1750 روپے تک پہنچ گئی‘ یہ ہم نے نہیں کیا یہ سابقہ حکومت کا کیا دھرا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال اس وقت بہتر ہوگی جب ایکسپورٹر اپنے پائوں پر کھڑا ہوگا۔ پنجاب کے ایکسپورٹرز کے لئے ایل این جی کی قیمت اتنی بڑھا دی گئی کہ لوگوں کی مشینری لوہے کے بھائو بک رہی ہے اور پانچ لاکھ مزدور بیروزگار ہوگئے ہیں۔

قائد حزب اختلاف کی تنقید کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 503 ارب کا گردشی قرضہ 2013ء میں تھا جس میں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 480 ارب روپے کی ادائیگی کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 1180 ارب روپے کے گردشی قرضے ہیں۔ جیسے ہی تیل کی قیمتیں بڑھنی شروع ہوئیں بجلی کے نظام میں خسارہ 453 ارب روپے پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فنانس بل میں 70 ارب کے ان ڈائریکٹ ٹیکس 1800 سی سی سے اوپر والی گاڑی پر لگائے گئے ہیں۔

یہ گاڑیاں غریب نہیں استعمال کرتے۔ امیروں کے استعمال کے امپورٹڈ کھانے پنیر وغیرہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ اسی طرح امیر طبقہ کے استعمال کے موبائل فونز پر ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ابھی ایک ماہ ہوا ہے آگے دیکھئے ٹیکس چوروں کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے۔ہم ٹیکس چوروں کے پیچھے جارہے ہیں‘ دیکھیں کہ کیسے پکڑے جاتے ہیں۔

ٹیکس چوروں کے لئے اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہماری حکومت نے پہلے کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اس قومی دولت کو وطن واپس لائیں گے۔ اس کے لئے وزیراعظم کے معاون خصوصی مقرر کئے گئے ہیں اور ایک ٹاسک فورس بھی قائم کردی گئی ہے۔ پی ایس ڈی پی پر سابق دور سے زیادہ رقم خرچ کی جائے گی۔

اگر سابق حکومت پورے ولولے کے ساتھ ڈیموں کی تعمیر پر کام کرتی تو قائد حزب اختلاف کو وضاحت نہ کرنا پڑتی۔ داسو ڈیم نہیں ہے اس لئے اس کا ذکر نہیں ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی میثاق معیشت کی بات کرتے تھے۔ پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جہاں یہ کام ہو سکتا ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ایک قدرتی فورم ہے اس میں پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کام ہو سکتا ہے۔

قومی ایشوز پر کمیٹی کے فورم پر کام کریں گے۔ فائلر اور نان فائلر کا مسئلہ جینوئن ہے۔ بیرون ملک پاکستانی نان فائلر ہونے کی بنیاد پر یہاں سرمایہ کاری نہیں کر سکتے تھے۔ اس مسئلے کو مل بیٹھ کر حل کریں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے جو بات آج قائد حزب اختلاف نے کی ہے کاش وہ اپنے دور میں بھی اس کا خیال رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ تمام پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

پاکستان کا وزیر اعظم کلبھوشن یادیو کا نام تک نہیں لیتا تھا۔ نواز شریف جب بھارتی وزیراعظم کی حلف برداری میں شرکت کے لئے گئے بڑے دل کا مظاہرہ تھا مگر انہوں نے بھارتی تاجروں کے ساتھ ملنا گوارہ کیا مگر کشمیری حریت لیڈروں کے ساتھ ملنے سے انکار کیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ بڑی معیشت ہونے کی بناء پر دھونس سے دبا سکتا ہے تو یہ خیال ان کا درست نہیں ہے۔

ہم مظلوم کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ بعد ازاں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور احسن اقبال کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے جواب میں وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت توانائی کے منصوبوں پر سود کا عنصر موجود ہے‘ میں نے حکومت پر بوجھ کی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے پر سیاست نہ کی جائے۔