سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے حوالے سے کیس کی سماعت ، انور مجید، عبدالغنی مجید اورحسین لوائی کو ہسپتالوں سے جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری

ٹرائل کورٹ کو اومنی گروپ کی اکائونٹس کھولنے کی درخواست پر فیصلہ نہ دینے کا بھی حکم جاری

پیر 24 ستمبر 2018 22:52

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2018ء) سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے حوالے سے کیس میں زیر حراست ملزمان انور مجید، عبدالغنی مجید اورحسین لوائی کو ہسپتالوں سے جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ ملزمان کی ایسی کوئی حالت نہیں کہ یہ بستر سے چپک کررہ گئے ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت دس روز کیلئے ملتوی کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو اومنی گروپ کی جانب سے اکائونٹس کھولنے کی درخواست پر فیصلہ نہ دینے کاحکم جاری کر دیا اور واضح کیا کہ خصوصی عدالت سپریم کورٹ کومطلع کئے بغیر جعلی اکائونٹس کے بارے میں کوئی حکم جاری نہیں کرے گی،۔

پیرکوچیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں جسٹس عمرعطابندیال اورجسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پرعدالت کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وقت کی کمی کے باعث ٹیم زیادہ کام نہیں کر سکی تاہم اب تک ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لینے سے بہت حقائق سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جے آئی ٹی نے 29 اکائونٹس کی ازسرنو تحقیقات کی گئیں تو مزید 33مشکوک اکاونٹس کا سراغ لگالیا گیا ہے ۔ان اکائونٹس کے ذریعے جو بھی نئے اکاونٹس سامنے آئے ہیں ہم ان کی سکروٹنی کر رہے ہیں ، نئے جعلی اکائونٹس کے ساتھ 210 کمپنیوں کے روابط کابھی سراغ لگالیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے عدالت کو مزید بتایا گیا کہ اومنی گروپ کے کل 47 پراجیکٹس میں سے 16 شوگر ملز ہیں ، تحقیقات کے دوران ایسے 334 افراد سامنے آئے ہیں، جوان اکائونٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنر کرتے رہے ہیں جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ لا نچو ں کے ذریعے سے رقم کی منتقلی کا بھی پتہ لگایا جائے، جس جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے جواب دیا کہ ابھی تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن اس حوالے سے بھی معلومات حاصل کی جائیں گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ چوری کا پیسہ اور حرام کا مال تھا جس کو جائز بنانے کیلئے یہ اکائونٹس کھولے گئے، یہ اربوں روپے کا معاملہ ہے ،جس کے پیش نظر ہم نے بڑے اعتماد کے ساتھ جے آئی ٹی کوتحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے، جے آئی ٹی کے سربراہ نے مزید کہا کہ جن ملزمان کاسراغ لگایا گیا ہے ان میں سے بہت سارے بیرون ملک چلے گئے ہیں جن کو واپس لانے کیلئے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ اومنی گروپ کی کتنی شوگر ملز ہیں۔ اومنی گروپ کسی کا بے نامی دار تو نہیں، جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ گروپ کے کل 16 شوگر ملز ہیں، جعلی بینک اکائو نٹس میں رقم جمع کروانے والوں میں ٹھیکیدار بھی شامل ہیں ، اس لئے رقم جمع کرانے والے سرکاری ٹھیکیداروں کے نام بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیئے ہیں ۔

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ جے آئی ٹی کا خرچہ اومنی گروپ پر ڈالا جائے گا، یہ نہیں ہوسکتاکہ پیسہ کوئی اور کھائے اور خرچہ سرکار ادا کرے، سماعت کے دوران اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید و عبدالغنی مجید کے وکیل شاہد حامد نے کہاکہ اومنی گروپ جے آئی ٹی کے اخراجات نہیں دے سکتی کیونکہ ہمارے تمام اکائونٹس منجمد ہیں، حتیٰ کہ ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے بھی پیسہ نہیں جس پرچیف جسٹس نے فاضل وکیل سے کہا کہ آپ کوئی بھی گھر بیچ کر اخراجات کیلئے جے آئی ٹی کو رقم ادا کردیں چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے کہا کہ اس سا رے معا ملے میں ایک اہم کردار عارف خان نامی شخص کا بھی ہے جس پرجے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ وہ بیرون ملک جاچکے ہیں، تاہم فی الوقت یہ نہیں بتاسکتا کہ وہ کس ملک میں ہیں۔

احسان صادق نے مزید کہا کہ جو جعلی اکائونٹس میں ملوث 6ملزمان باہر ہیں ،انہیں واپس لانے کے اقدامات کر رہے ہیں جس کی واپسی کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیقات کے لئے نیب ، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک سے ریکارڈ لیا جارہا ہے، کرائی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کیا رقم کراس چیک کے ذریعے اکائونٹس میں جمع کرائی گئی ہے تو احسان صادق نے بتایا کمپنیوں میں 47 کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے، سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج انور مجید ، عبدالغنی مجید اورحسین لوائی کی طبی تشخیص کیلئے قائم میڈیکل بورڈ کی جانب سے رپورٹس عدالت کوپیش کی اور بتایا کہ انور مجید، عبدالغنی مجید اور حسین لوائی تینوں کی رپورٹس آچکی ہیں، میڈیکل بورڈ نے رپورٹ کے ساتھ اپنی سفارشات میںکہا ہے کہ انور مجید تحقیقات میں جاسکتے ہیں بورڈ نے انور مجید اورعبدالغنی مجید دونوں کو جیل منتقل کرنے کی سفارش کر تے ہوئے کہا ہے کہ وہ جیل جاکر تحقیقات میں پیش ہوسکتے ہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید تاحیات بیمار نہیں ہیں، ان کی ایسی کوئی حالت نہیں کہ یہ بستر سے چپک گئے ہیں، انور مجید اگر اوپن ہارٹ سرجری کروانا چاہتے ہیں تو کروائیں، عدالت کواس امرپرکوئی عتراض نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی تو انور مجید اوپن ہارٹ سرجری کروا نے کیلئے تیار نہیںبلکہ سرجری کے لئے ڈاکٹروں کی ہدایات کا انتظار کر رہے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سرجری کرانی ہے تو کروا لی جائے ورنہ جیل بھیجواکرسرجری کیلئے انتظامات کرائے جائیں انتظامات کے بعد ان وکیل عدالت کوآگاہ کردیں کہ سرجری کب کروانی ہے اورکونسے ہسپتال میں رہنا ہے ، چیف جسٹس نے مزید کہاکہ ایک مریض کو توصرف ہیومورائڈ (بواسیر) ہے وہ تو کریم سے بھی ٹھیک ہوجاتی ہے، انور مجید کے دل کا سرے سے کوئی معاملہ تو ہی نہیں، جبکہ حسین لوائی کوتوکوئی بیماری ہی نہیں ، سب کو جیل منتقل کردیا جائے ، انہوں نے ڈیڑھ ماہ سے موجیں لگا رکھی ہیں، کیا یہ سرکاری مہمان ہیں وزیراعلیٰ سندھ کوبھی پیغام دیا جائے کہ ملزمان کوسپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں نہ رکھیں عدالت کو اومنی گروپ کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل سائوتھ سٹی ہسپتال میںآپریشن کراناچاہتے ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں یہ سا ئوتھ سٹی ہسپتال ڈاکٹر عاصم کا تو نہیں جس پر جے پی ایم سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ یہ نجی ہسپتال ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق انور مجید صحت مند ہیں وہ تحقیقات میں شریک ہوسکتے ہیں ، فاضل وکیل نے استدعا کی کہ عدالت ان کو رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے وقت دیا جائے توچیف جسٹس نے ان کی استدعامسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملزمان کوجیل بھیج رہے ہیں ،کوئی سرجری کرانا چاہے توکر ائے ،نہیں تواپریشن کے انتظامات ہونے تک وہ جیل میں رہیں گے۔

جب اپریشن کاشیڈول جاری ہوگا توجیلر سپرنٹنڈنٹ ان کواجازت دیدیں گے۔ میری طرف سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو پیغام دیا جائے ، اس کیس میں کسی قسم کا کوئی دبائوبرداشت نہیں کیا جائے گا، اگر انور مجید اور عبدالغنی مجید کو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے بٹھایا گیا تو اچھا نہیں ہو گا، وزیر اعلیٰ اب یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ان کے لیے سپرنٹنڈنٹ کا کمرہ حاضر ہے، فاضل وکیل نے کہا کہ عبدالغنی مجید کی بواسیر کی سرجری کی جارہی ہے ، ان کا ہیموگلوبن بھی کم ہوگیا ہے، تو چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ سرجری کرانے پر ہمارا اختلاف نہیں سرجری بے شک کروائی جائے ، لیکن پہلے دونوں کو جیل بھیجاجائے ،چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب سرجری کا وقت ہو تو عبدالغنی مجید کو ہسپتال منتقل کردیاجائے ک میں نہیں رہ سکتے جبکہ حسین لوائی تو ویسے ہی فٹ ہیں، انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے،بعد ازاں عدالت نے انور مجید، عبدالغنی مجید اور حسین لوائی کو واپس جیل بھیجنے کا حکم جاری کرتے ہوئے میڈیکل بورڈ کا معاملہ نمٹا دیا ،اورہدایت کی کہ ٹرائل کورٹ اومنی گروپ کے اکائونٹس کھولنے کی درخواست پرفیصلہ نہیں دے گی ، عدالت آرٹیکل 184 کے تحت اسپیشل کورٹ کو حکم جاری کرنے سے روکتی ہے کہ وہ جعلی بینک اکاونٹس سے متعلق سپریم کورٹ کو آگاہ کئے بغیر کوئی حکم جاری نہیں کرے گی ، اس طرح اس کیس کو سننے والی بنکنگ کورٹ بھی کسی فریق کی درخواست پر کوئی ہدایت جاری نہیں کرے گی بعدازاں مزید سماعت ملتوی کردی ہے۔