جدہ:سعودی عرب میں تبدیلی سچ مچ آ گئی

تاریخ میں پہلی بار خاتون نیوز کاسٹر شام کے نیوز بلیٹن میں دکھائی دے رہی ہے

Muhammad Irfan محمد عرفان منگل 25 ستمبر 2018 14:49

جدہ:سعودی عرب میں تبدیلی سچ مچ آ گئی
جدہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25 ستمبر 2018ء) سعودی عرب گزشتہ دو تین برسوں سے تبدیلی کے ایک بپھرے طوفان کی زد میں ہے۔ خاص طور پر خواتین کو بہت زیادہ آزادی مِل رہی ہے۔ جمعرات کی شام کو ایک ایسی ہی بڑی تبدیلی آ گئی جب لوگوں نے سعودی عرب کے ایک سرکاری ٹی وی چینل پر سعودی خاتون کو شام کا نیوز بلیٹن پیش کرتے دیکھا۔ وائم ال دخیل نامی سعودی خاتون نے اس وقت تاریخ رقم کر دی جب وہ سرکاری چینل ون پر رات ساڑھے نو بجے کا نیوز بلیٹن پیش کرنے کے لیے ساتھی اینکر عمر النشوان کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان نظر آئی ۔

ایسا سعودی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ روایتی طور پرشام کو خبریں پڑھنے کا شعبہ مردوں کے سپرد ہی رہا ہے جبکہ خواتین صبح کے پروگرامز مثلاً کوکنگ شوز اور موسم کی صورت حال بتانے تک ہی محدود رہی ہیں۔

(جاری ہے)

پہلی بار 2016ء میں ایک خاتون جُمانا السہمی نے صبح کے وقت خبریں پڑھنے کا آغاز کیا۔ جبکہ وائم الدخیل سعودی میڈیا کی تاریخ کی وہ پہلی خاتون ہے جس نے مملکت کے ٹی وی چینل پر کسی خاتون کی جانب سے رات کا نیوز بلیٹن پیش کرنے کی داغ بیل ڈالی ہے۔

وائم کے پیشہ ورانہ انداز اور بھرپور اعتماد کے ساتھ مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی خبریں پیش کرنے کے انداز نے سامعین کے دِل جیت لیے اور اُنہیں ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا۔ شام کے نیوز بلیٹن میں خاتون اینکر کا اضافہ ٹویٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا جس کے بعد ٹویٹر صارفین نے اس تبدیلی پر ایک دوسرے کو دل کھول کر مبارک باد دی اور اس اُمید کا اظہار کیا کہ مستقبل قریب میں خواتین کی مزید شعبوں میں شمولیت بھی نظر آئے گی۔

ایک سعودی خاتون نورا نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ یوم الوطنی کے موقع پر وائم الدخیل کی بطور نیوز کاسٹر بھرتی دُخترانِ مملکت کے لیے ایک بہت نیک شگون ہے۔ مملکت کے وِژن 2030کے مطابق سعودی خواتین کو بااختیار اور برسرروزگار کرنا اہم مقاصد میں شامل ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بند سلمان کی جانب سے مملکت کی اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے ہر شعبے میں دھڑادھڑ اصلاحات کا نفاذ کیا جا رہا ہے۔ ایسے ہی ایک اصلاحی اقدام کے تحت 24 جُون 2018ء کو مملکت میں خواتین کی ڈرائیونگ پر چار عشروں سے عائد پابندی ہٹا لی گئی۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال سعودی عرب کی افرادی قوت میں تقریباً چھے لاکھ خواتین کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔