شہبازشریف ڈیم کیلئےپیسےنہیں دیناچاہتےتونہ دیں،چیف جسٹس

شہبازشریف نےعدالت میں55 لاکھ کا چیک لہرایا تھا، شہبازشریف ذاتی تشہیر کے پیسے اپنی جیب سے دیں، اشتہاری مہم پری پول دھاندلی تھی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کے سرکاری اشتہارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 25 ستمبر 2018 17:01

شہبازشریف ڈیم کیلئےپیسےنہیں دیناچاہتےتونہ دیں،چیف جسٹس
اسلام آباد(اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔25 ستمبر 2018ء) چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ شہبازشریف ڈیم فنڈ میں پیسے نہیں دینا چاہتے تونہ دیں، شہبازشریف نے عدالت میں جو55لاکھ کا چیک لہرایا تھا، شہبازشریف ذاتی تشہیر کے پیسے اپنی جیب سے دیں،اشتہاری مہم پری پول دھاندلی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سابق پنجاب حکومت کی جانب سے سرکاری اشتہارات کی غیرجانبدرانہ تقسیم کے معاملے پرکیس کی سماعت ہوئی۔

اس موقع پرچیف جسٹس ثاقب نثار نے بڑے دلچسپ ریمارکس دیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف ڈیم کوتسلیم نہیں کررہے چلیں اگر وہ ڈیموں کوتسلیم نہیں کرتے توکہیں کوئی چھپڑ ہی بنا دیں۔

(جاری ہے)

کیونکہ شہبازشریف اس ڈیمز مہم میں توپیسے نہیں دینا چاہتے۔سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے وکیل شاہد حامد نے دلائل میں کہا کہ حکومت نے 122ارب ڈیمزکیلئے واپڈا کودیے تھے۔

جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ عوام کا پیسا ذاتی اشتہاری مہم پراستعمال کیا گیا۔عوام کا پیسا واپس کیا جانا چاہیے۔شہبازشریف نے عدالت میں جو55لاکھ کا چیک لہرایا تھا ایسا لگتا ہے کہ یہ سب پوائنٹ اسکورنگ کیلئے کیا گیا تھا۔تاہم اب شہبازشریف کا پیسے دینے کودل نہیں مان رہا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل کوہدایت کی کہ شہبازشریف سے پوچھیں کہ وہ پیسا دینا چاہتے ہیں یا پھر کیس کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں بچوں کی رول نمبر سلپس پربھی شہبازشریف کی تصاویر لگی ہوتی تھیں۔حالانکہ پیسے عوام کے ٹیکس کے ہوتے تھے لیکن عوام نے ان پیسوں کواپنی ذاتی اشتہاری مہم کیلئے استعمال کیا۔اشتہاری مہم پری پول دھاندلی کے زمرے میں آتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا کہ شہبازشریف نے 55لاکھ روپے کا چیک عدالت میں لہرایا تھا۔

عدالت نے کیس کی سماعت 2اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہریت کے حوالے کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے،اورواضح کیاہے کہ پالیسی بنانا حکومت کااختیار ہے فیصلہ دیں گے نہ پالیسی ،اس معاملے میں حکومت کوصرف سفارشات پیش کریں گے ،اراکین پارلیمنٹ کے لئے دوہری شہریت کی پابندی ہے تو بیوروکریٹس کیلئے کیوں نہیں، بیرون ملک ملازمت کرنے والوں کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے، پیرکوچیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہرت سے متعلق کیس کی سماعت کی ،اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو لوگ پاکستان کو دھوکہ دے کرباہر چلے گئے اوروہاں جائیدادیں بنالیں ہیں۔

ان کے لئے یہاں کوئی گنجائش نہیں، یہاں تویہ حال ہے کہ بعض سرکاری افسران ایک ایک سال کی چھٹی لے وہاں ملازمت کرنے لگے۔