مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے‘ وزیر خارجہ کو جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کشمیریوں کو نہیں بھولنا چاہیے‘ بھارت کو واہگہ بارڈر کے ذریعے افغانستان تک رسائی دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے‘ کلبھوشن کا پکڑا جانا ہمارے پاس بھارتی مداخلت کا واحد ثبوت ہے‘ ہم پاکستان کے وقار اور عزت میں اضافے کے خواہاں ہیں‘ آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے مؤثر انداز میں اقدامات اٹھائے جائیں‘ ہم اس کی بھرپور حمایت کریں گے، واٹر پالیسی پر چاروں وفاقی اکائیوں کا اتفاق ضروری ہے

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف کا قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر اظہار خیال

بدھ 26 ستمبر 2018 15:10

مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے‘ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 ستمبر2018ء) مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف نے خارجہ پالیسی اور مہاجرین کو شہریت دینے کے اعلان سمیت مختلف حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے‘ وزیر خارجہ کو جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کشمیریوں کو نہیں بھولنا چاہیے‘ بھارت کو واہگہ بارڈر کے ذریعے افغانستان تک رسائی دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے‘ کلبھوشن کا پکڑا جانا ہمارے پاس بھارتی مداخلت کا واحد ثبوت ہے‘ ہم پاکستان کے وقار اور عزت میں اضافے کے خواہاں ہیں‘ آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے موثر انداز میں اقدامات اٹھائے جائیں‘ ہم اس کی بھرپور حمایت کریں گے ، واٹر پالیسی پر چاروں وفاقی اکائیوں کا اتفاق ضروری ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ محمد آصف نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر گزشتہ ایک ماہ میں سوائے خفت اٹھانے کے اور کچھ نہیں ملا، بھارت کے ساتھ گزشتہ کچھ عرصہ سے بگڑتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے بھی ہمیں شرمندگی ہوئی ہے، امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی کہا جارہا ہے کہ ازسر نو بہتری آرہی ہے مگر پاکستان پر انہوں نے دہشت گردی کا الزام لگایا ‘ فرانس سے ٹیلی فون کال کے حوالے سے جو بات ہوئی اس پر بھی ہمیں عالمی سطح پر شرمندگی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کی سائڈ لائن ملاقاتوں میں بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تجویز کو جس طرح رد کیا گیا اس سے بھی ہمیں شرمندگی ہوئی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سی پیک منصوبہ پر نظرثانی کی بات کرکے ابہام پیدا کیا گیا جس کی بعد میں کئی روز تک تردید کرنا پڑی، اس منصوبے میں دیگر ممالک کی شمولیت کی بات بھی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ کا پاکستان میں آنا پاک چین دوستی کی عظیم مثال ہے، اس منصوبے پر شکوک و شبہات سے پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ مہاجرین کو پاسپورٹ دے دیئے جائیں گے اور پھر کہا گیا کہ یہ تجویز ہے۔ ڈیڑھ لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین ہیں اور غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ ہم گزشتہ چار دہائیوں سے ان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ بلوچ بھائی اس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ کراچی بھی اس مسئلے پر شدید مسائل کا شکار ہے۔ افغانستان نے ہمارے ساتھ بات چیت میں ان مہاجرین کو واپس بلانے پر آمادگی ظاہر کی۔

انہوں نے کہا کہ کوئی ملک بھی اس طرح سے شہریت دینے کا اعلان نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا ایشو ہے، اس سے اس طرح ڈیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں وزیر خزانہ نے کلبھوشن کا طعنہ دیا، تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے پر یہ الزام مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب آئینی اور مقتدر ادارے اتفاق رائے سے کسی بات پر توجہ دیتے ہیں وہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ڈیم کا ذکر کیا تو پانی کے مسئلے پر توجہ بڑھ گئی۔ پاک فوج نے ایک ارب سے زائد ڈیم فنڈ میں رقم دی۔ ارسا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو بڑے آبی ذخائر ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپریل 2018ء میں چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ کے دستخطوں سے جو واٹر پالیسی بنائی اس میں درج ہے کہ بھاشا اور مہمند ڈیم بنائیں گے۔ بھاشا ڈیم کے لئے 122 ارب روپے کی لاگت سے زمین خریدی گئی۔

ہم نے 23 ارب روپے بجٹ میں بھاشا ڈیم کے لئے مختص کئے۔ ہر سال اگر 40 ارب روپے مختص کردیئے جائیں تو یہ پانچ سے سات سالوں میں بن سکتا ہے۔ ہم نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ نئی حکومت اور محترم ادارے اس میں حصہ لے رہے ہیں جو بڑی اچھی بات ہے، ہم آبی ذخائر کے حوالے سے سو فیصد سپورٹ کریں گے۔ میگا ڈیم کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیم بھی بنائے جائیں تو یہ درست سمت میں قدم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ربیع کی فصل پر 45 فیصد پانی کم ہوگا۔ نہری نظام کے ذریعے 63 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر پانی کی بچت کرلی جائے تو تین کالا باغ ڈیم کے برابر پانی بچ سکتا ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی عمر میں 35 سال کا اضافہ ہوگا۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اس پر نیک نیتی سے قدم اٹھائے جائیں، اگر موثر انداز میں اس پر کام کیا جائے تو مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی بجٹ کے بعد مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔