حکومت معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے خواتین کی حوصلہ افزائی کرے،میاں زاہد حسین

بدھ 26 ستمبر 2018 18:24

حکومت معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے خواتین کی حوصلہ افزائی کرے،میاں ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 ستمبر2018ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد49فیصد ہے جس میں صرف 25فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔کام کرنے والی خواتین کی بڑی تعداد تقریباً60فیصد زراعت اور 10فیصد سروسزکے شعبہ سے وابستہ ہے جبکہ معیشت کے دیگر اہم شعبوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کی 40فیصد کام کے قابل آبادی میں صرف 8فیصدبرسرروزگار ہیں جبکہ خواتین کی تعداد اور کم ہے۔پلاننگ کمیشن کے وژن 2025کا بنیادی مقصد لوگوںکی صلاحیتوں کو اجاگر کرنااور انٹرپرینیورشپ کو ملک میں فروغ دینا ہے، جس کے لئے 2015میں کمیشن نے سینٹر برائے سوشل انٹرپرینیورشپ قائم کیااور بھاری سرمایہ کاری کی۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے اٹک ویمن چیمبر کے وفد اور پیٹرن انچیف حنا منصب خان سے گفتگو میںکہا کہ اٹک روایتی دستکاری بشمول دیدہ زیب جوتے، خوبصورت نقش ونگار والے فرنیچر اور دیگر لکڑی کے سامان ، کھڈی پر بنائے گئے بیڈ شیٹس، ٹیبل کورز، کپڑوںاور کمبلوں کے لئے ملک بھر میں شہرت رکھتا ہے ۔

حکومت پنجاب کی پری انوسٹمنٹ سروے کے مطابق اٹک شہر میں خواتین کے لئے دستکاری، فیشن ڈیزائننگ، بیوٹی پروڈکٹس، فوٹوگرافی ، بیکری اور کنفیکشنری سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے اہم مواقع ہیں۔ ہنر مند اور تعلیم یافتہ خواتین پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ خواتین انٹرپرینیور کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، فرسٹ ویمن بینک اور اخوت سمیت مائیکرو فائنانسنگ کے اداروں سے کاروباری خواتین قرضہ حاصل کرکے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکتیں ہیں اور نیا کاروبار بھی شروع کرسکتی ہیں۔

خواتین کی معاشی ترقی میں شمولیت پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں انتہائی ضروری ہے تاہم اس جانب مطلوبہ توجہ نہیں دی جارہی۔ 1992کے لیبر سروے کے مطابق پاکستان کی 16فیصد خواتین ورک فورس کا حصہ تھیں جبکہ اقوام متحدہ کے صنفی عدم مساوات کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 25فیصد خواتین ورک فورس کا حصہ ہیں۔ تقریباً26سالوں میں خواتین ورک فورس میں صرف 9فیصد اضافہ ہوا ہے، جو انتہائی توجہ طلب ہے۔

صنفی عدم مساوات کے عالمی انڈیکس پربھارت 130اورپاکستان150ویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میںپاکستان سب سے نیچے ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان کے لوگوں کوقدرت نے بے حد صلاحیتوں سے نوازا ہے اور خواتین صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں لیکن خواتین کو معاشی میدان میں درپیش چیلینجز کو ختم کرنے کے لئے حکومت کوملک بھر میںقائم 15 ویمن چیمبرز آف کامرس کے ساتھ مل کر اقدامات کرنے چاہئیں۔

دنیا بھر میں آٹومیشن کی وجہ سے بہت سارے شعبوں میں تبدیلی آرہی ہے، جس کی وجہ سے انفرادی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خواتین کی کیپیسٹی بلڈنگ کے لئے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔خواتین کو کام کرنے میں درپیش چیلینجز خصوصاًدوران کام ہراسمنٹ کو ختم کیا جائے اور خواتین کے مفادات کے تحفظ کے لئے موجود ملکی قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ اٹک ، چکوال اور منسلکہ اضلاع میں خواتین کے لئے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے باعث خواتین گریجویشن کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں۔ واہ اور ٹیکسلا میں اگرچہ پوسٹ گریجویشن کے مواقع موجود ہیں لیکن خواتین کے لئے ہاسٹلز نہ ہونے کے باعث دوسرے شہروں سے آنے والی خواتین کے لئے بے فائدہ ہے، حکومت اٹک، چکوال اور دیگر اضلاع میں خواتین کے لئے اعلیٰ تعلیمی اور کیپیسٹی بلڈنگ کے ادارے قائم کرے تاکہ خواتین کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔