اسٹیٹ بینک کا اگلے2 ماہ کیلئےمانیٹری پالیسی کا اعلان

شرح سود ایک فیصد بڑھا کر8.5 فیصد کردی گئی، درآمدی دیوٹی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھ سکتی ہے، نئی شرح سود کا اطلاق یکم اکتوبر سےہوگا

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ ہفتہ 29 ستمبر 2018 19:50

اسٹیٹ بینک کا اگلے2 ماہ کیلئےمانیٹری پالیسی کا اعلان
اسلام آباد(اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔29 ستمبر 2018ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اگلے دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی جاری کردی ہے، جس کے تحت شرح سود ایک فیصد بڑھا کر8.5 فیصد کردی گئی ہے، درآمدی دیوٹی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھ سکتی ہے، نئی شرح سود کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے دو مہینوں کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کے مطابق شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ شرح سود ایک فیصد سے بڑھا کرساڑھے 8 فیصد کردی گئی ہے۔ نئی شرح سود کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا۔اسٹیٹ بینک نے خبردار کیا ہے کہ مالیاتی خسارے کا بڑا حجم معیشت کیلئے چیلنج ہے۔ مالیاتی خسارے کی وجہ سے مہنگائی بڑھنے کے خدشات ہیں۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ درآمدی دیوٹی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔

خام تیل کی قیمتوں کی وجہ سے جاری خسارے میں اضافہ ہوا۔ تاہم ملک میں مہنگائی بڑھنے سے حقیقی شرح سود کم ہوئی۔ عالمی معاشی حالات سے نمٹنا پاکستان کے لیے چیلنج ہے۔ واضح رہے ڈالر کی قدر میں اضافے سے ملکی قرضوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ جبکہ تاحال حکومت کی جانب سے خزانے کو سہارا دینے کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنائی گئی۔ جبکہ حکومت نے عوام کوریلیف دینے کی بجائے بجلی ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔

وزیرخزانہ اسد عمر کا منی بجٹ سے متعلق کہنا ہے کہ غریب عوام کیلئے صرف 10 فیصد گیس کی قیمتیں بڑھائی گئیں، گیس کی قیمت میں اضافے کا اثر کسان پر نہیں پڑنے دیا جائے گا۔ اوگرا نے بتایا ہے کہ 46 فیصد اضافہ ضروری ہے۔ 154 ارب کاخسارہ تھا، یہ خسارہ گزشتہ حکومت کا تھا، ہم نے پیدا نہیں کیا۔ روپے کی قدر میں خطیر کمی واقع ہوئی ہے، اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں کوئی بحران نہیں ہم تو جس طرف نظر ڈالتے ہیں بحران ہی بحران نظر آتے ہیں، تمام سابق حکومتیں غیرملکی امداد لیتی رہیں، ہم کہتے رہے ایکسپورٹرز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں ہماری نہیں سنی گئی، گردشی قرضہ 1100 ارب روپے پر پہنچ گیا۔

ایک سال میں بجلی کے شعبے میں سالانہ خسارہ 453 ارب ہوا،بجٹ میں ریگولیٹری ڈیوٹی پرتعیش اشیاء پر لگائی ہے۔ غریب آدمی کے استعمال کی کسی چیز پر ٹیکس نہیں بڑھایا گیا۔ گھنگرو والوں کیلئے مشورہ ہے اپنے حصے کا جائز ٹیکس دینا شروع کردیں۔ ہم ٹیکس چوروں کے پیچھے جائیں گے اور انہیں پکڑیں گے،ڈیم کے حوالے سے جس خلوص نیت سے بات کی گئی کاش ایسے کام بھی کیا جاتا۔