اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ، جس کے تحت شرح سود میں ایک فیصد اضافہ

ہفتہ 29 ستمبر 2018 22:31

اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ، جس کے تحت شرح سود ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 ستمبر2018ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہفتے کو نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا جس کے مطابق پاکستان کی سیاسی صورت حال میں قابل ذکر تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن کے کاروبار اور صارفین کے اعتماد پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جس کی عکاسی مختلف سروے سے ہوتی ہے۔ ایک حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار کی ہموار منتقلی سے اب تک پائی جانے والی سیاسی بے یقینی کی صورت حال ختم ہو چکی ہے، تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بڑے جڑواں خساروں کی بنا پر معاشی صورت حال کے بارے میں خدشات برقرار ہیں کیونکہ امکان ہے کہ اس سے بلند حقیقی معاشی نمو کی پائیداری متاثر ہو گی۔

مہنگائی (inflation) میں اضافہ ہو رہا ہے، خصوصاً مارچ 2018ء سے۔ اب تک مالی سال 19ء کے ابتدائی دو مہینوں میں عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی (CPI) 5.8 فیصد کی اوسط سطح پر رہی ہے جبکہ مالی سال 18ء کی اسی مدت میں یہ 3.2 فیصد اور پورے مالی سال 18ء میں اس کی اوسط 3.9 فیصد تھی۔

(جاری ہے)

حتیٰ کہ یہ اضافہ معیشت میں مہنگائی کے مخفی دباؤ کی عکاسی کرنے والے پیمانے قوزی مہنگائی میں اور بھی زیادہ نمایاں ہے۔

مالی سال 19ء کے لیے اسٹیٹ بینک کی مہنگائی کی پیش گوئیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوسط عمومی مہنگائی 6.5 تا 7.5 فیصد کی بالائی حد کے قریب رہنے کی توقع ہے۔ اس جائزے میں تیل کی عالمی قیمتوں میں توقع سے زیادہ بلند اضافہ ، ملکی گیس کی قیمتوں میں اضافہ ، درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں مزید اضافہ اور شرح مبادلہ میں پچھلی کمی کے دورِثانی اثرات کے تسلسل کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔

مالی سال 18ء میں 5.8 فیصد کی صحت مند نمو کے بعد امکان ہے کہ مالی سال 19ء میں معاشی سرگرمی کچھ سست رہے گی کیونکہ عمومی معاشی پالیسی میں توجہ استحکام پر مرکوز کی جار ہی ہے۔ خصوصاً جنوری 2018ء سے اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں 175 بی پی ایس اضافے کی ترسیل کے اثرات ابھی مرتب ہو رہے ہیں۔ حکومت بھی اب بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے میں کمی کے لیے مالیاتی یکجائی کے پروگرام پر عمل پیرا ہے اور بیرونی شعبے پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مزید ضوابطی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

نتیجتاً، ان اقدامات سے مالی سال 19ء کے آئندہ مہینوں میں ملکی طلب میں کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔حالیہ زری اور مالیاتی اقدامات پر عملدرآمد سے امکان ہے کہ بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) کا شعبہ متاثر ہو گا۔ مزید برآں، تازہ ترین معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ کپاس کی پیداوار مالی سال 19ء میں اپنے 14.4 ملین گانٹھوں کے ہدف سے کم رہنے کی توقع ہے، جس کے زرعی شعبے کی نمو پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

مالی سال 19ء میں منسلک خدمات کا شعبہ توقع ہے کہ اپنے ہدف کو حاصل نہیں کر سکے گا۔ برآمداتی پیداوار سے اور کم ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سے کھاد کی بلند پیداوار اورتوانائی کی دستیابی میں بہتری کے مثبت اثرات متوقع ہیں۔ طلب و رسد دونوں کی تازہ ترین معلومات کو شامل کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ مالی سال 19ء میں حقیقی جی ڈی پی کی نمو تقریباً 5 فیصد رہے گی۔

جاری حسابات کا خسارہ بدستور چیلنج بنا ہوا ہے۔ مالی سال 19ء کے ابتدائی دو مہینوں میں کارکنوں کی ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں حوصلہ افز ا نمو کے باوجود تیل کی درآمدات میں قابل ذکر اضافے کی بنا پر جاری کھاتے کا خسارہ 2.7 ارب ڈالر ہے، جو گذشتہ برس کم ہوتی ہوئی نان آئل درآمدات کی وجہ سے اسی مدت میں 2.5 ارب ڈالر تھا۔ ان پیش رفتوں کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال ذخائر 19 ستمبر 2018ء کو کم ہو کر 9.0 ارب ڈالر پر آگئے جو م س 18ء کے اختتام پر 9.8 ارب ڈالر تھے۔

یکم جولائی تا 14 ستمبر مالی سال 19ء میں زر وسیع میں موسمی کمی دیکھی گئی جبکہ گذشتہ برس کی اسی مدت میں 0.9 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اسی مدت میں نجی شعبے کے قرضے کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی۔ نجی شعبے کے قرضوں میں نمو کی اہم وجوہات یہ ہیں توانائی کی دستیابی میں بہتری ، جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے ساتھ قدرے سازگار برآمدی طلب اور گذشتہ تین برسوں میں استعداد بڑھنے کی بنا پر جاری سرمائے کی بلند ضروریات۔

اسی لیے نجی شعبے کے قرضوں کی نمو میں اضافہ جاری رہنے کی توقع ہے لیکن مالی سال 18ء کے مقابلے میں سست رفتاری سے۔ اسی طرح مالی سال 19ء میں زری نمو 10.5 تا 11.5 فیصد رہنے کی توقع ہے۔اس تناظر میں زری پالیسی کمیٹی کا مشاہدہ ہے کہ اگرچہ غیر تیل درآمدات پر سکڑاؤ کے اقدامات کا اثر ہو رہا ہے، تاہم تیل کے نرخوں میں اضافہ اس بہتری کو زائل کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں جاری حسابات کا خسارہ بلند رہے گا ، مہنگائی میں ابھرتے ہوئے رجحانات کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی شرحِ سود مزید گری ہے،اور ظاہر ہونے والی عالمی تبدیلیاں، خواہ وہ تیل کے نرخوں کے دھچکے ہوں،تحفظ پسند تجارتی پالیسیاں اور/یا ابھرتی ہوئی منڈیوں کو رقوم کی فراہمی میں کمی ، سب پاکستان میں اقتصادی انتظام کے لیے سخت چیلنج بنیں گی۔

چنانچہ مذکورہ بالا حالیہ اور ارتقا پذیر معاشی صورت حال کی روشنی میں زری پالیسی کمیٹی کی رائے ہے کہ اقتصادی استحکام یقینی بنانے کے لیے یکجائی (consolidation) کی مزید کوششیں درکار ہیں، اور لہٰذا کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم اکتوبر 2018ء سے اسٹیٹ بینک کے ٹارگٹ پالیسی ریٹ میں 100 بی پی ایس اضافہ کر کے اسے 8.5 فیصد کر دیا جائے۔#