قوم کے پیسے سے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزر لینڈ میں جائیدادیں نہیں بنیں گی‘

وزیراعظم کا قوم سے وعدہ ہے کہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہوگا‘ ٹیکس نادہندگان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی‘ ریاست اتنی کمزور نہیں جتنی نظر آتی ہے‘ نان فائلرز کے لئے مراعات استثنیٰ کے ساتھ دی گئی ہیں‘ ایل پی جی پر امپورٹ ڈیوٹی 30 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کر رہے ہیں‘ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے ٹیکنالوجی کی مدد لیں گے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

بدھ 3 اکتوبر 2018 16:09

قوم کے پیسے سے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزر لینڈ میں جائیدادیں نہیں بنیں گی‘
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اکتوبر2018ء) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ قوم کے پیسے سے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزر لینڈ میں جائیدادیں نہیں بنیں گی‘ وزیراعظم کا قوم سے وعدہ ہے کہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہوگا‘ ٹیکس نادہندگان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی‘ ریاست اتنی کمزور نہیں جتنی نظر آتی ہے‘ دیانتدار لوگ کرسیوں پر ہوں گے تو ریاست میں دم ہے کہ پیسے نکلوا سکے‘ نان فائلرز کے لئے مراعات استثنیٰ کے ساتھ دی گئی ہیں‘ ایل پی جی پر امپورٹ ڈیوٹی 30 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کر رہے ہیں‘ ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لئے ٹیکنالوجی کی مدد لیں گے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ملک ہم سب کا ہے، رائے کا اختلاف ہوسکتا ہے‘ پی ایس ڈی پی پر بہت بات کی گئی ہے‘ ترقیاتی سکیموں کے قتل عام کی بات کی گئی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے پی ایس ڈی پی کے اعداد و شمار کاغذ پر ضرور لکھے تھے لیکن اتنے پیسے خرچے نہیں ہوسکتے، حقیقت میں پی ایس ڈی پی کے تحت 661 ارب گزشتہ سال خرچ کئے گئے تھے۔

ہم گزشتہ سال سے زیادہ ترقیاتی اخراجات کریں گے‘ بلوچستان کے منصوبے صرف کاغذی تھے اور ان کی منظوری بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ بجلی کے معاملے پر زیادتی کی گئی‘ ان علاقوں میں بہت زیادہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اور تاثر دیا جاتا کہ لوگ بل نہیں دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت وفاق ٹرانسمیشن کا نظام بچھا رہا تھا تو چھوٹے صوبوں کو ترجیح نہیں دی گئی ۔

کے پی کے اور بلوچستان میں بجلی کی ترسیل مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور فاٹا کا خصوصی حق ہے، بڑے ممالک میں کمزور اور اقتصادی پر کم ترقی یافتہ علاقوں کا خیال رکھا جاتا ہے، ہمارے اپوزیشن کے دوست ایسی باتیں کر رہے ہیں جیسے پاکستان میں چاروں طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورتحال انتہائی تشویشناک تھی۔

جب مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں تو ہم نے مخالفت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو 480 ارب روپے کے گردشی قرضے تھے جن کی ادائیگی کردی گئی، ہم بھی اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں‘ پہلے سے بھی چل رہی ہے۔ تاہم ایک سال کے اندر گردشی قرضوں میں 453 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور اس وقت یہ قرضے 1200 ارب سے تجاوز کرچکے ہیں، جو کام یہ 40 سال میں نہیں کرسکے ہم سے پوچھتے ہیں کہ 40 دن میں کیوں نہیں کئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح اوگرا کے مطابق گیس کے نظام میں 154 ارب کا خسارہ ہے۔ گردشی قرضے اس نہج کو پہنچ گئے ہیں کہ اب ادائیگی کے لئے پیسے نہیں بچے۔ ایل سی نہیں کھل رہی، پی ایس او پی آئی اے کو تیل دینے کو تیار نہیں، بدترین معاشی پالیسیاں اختیار کی گئیں، سٹیل ملز تین سال بند پڑی ہے، مسلم لیگ (ن) نے بیوائوں کی پنشن روک کر رکھی تھی اور کہتے ہیں بحران نہیں، مزدوروں کے 40 ارب کے ورکرز ویلفیئر فنڈ پر ڈاکہ ڈالا گیا، ریاست مدینہ کی بات کی گئی، ہم تمام مسلمان اس ریاست کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، ہم نے اس نظام کی کوشش کرنی ہے جو ریاست مدینہ میں تھا، اس نظام کا بنیادی جزو انصاف تھا، جہاں خلیفہ وقت سے سوال ہو سکتا تھا آج ہمیں ریاست مدینہ کو یاد کرانے والے کاش سٹیل ملز میں لوگوں کی تنخواہیں و پنشن روکنے سے دو افراد کی خودکشیوں کو یاد رکھتے، جب وزیراعظم ہائوس کی سیکیورٹی پر کروڑوں اور کتوں کی خریداری پر 24 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل پر بحث کے دوران فائلر اور نان فائلرز کے ایشو پر بہت زیادہ بحث کی گئی۔ انہوں نے کہا تین استثنیٰ کے ساتھ نان فائلرز کے لئے سہولیات فراہم ہوں گی جن میں غیر ملکی پاکستانی ‘ وراثت‘ 200 سی سی سے نیچے موٹر سائیکلوں کی خریداری پر فائلر کی شرط لاگو نہیں ہوگی۔ غیر ملک میں مقیم پاکستانی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو ان کو استثنیٰ ملے گا۔

وراثت کے کیسوں میں بھی استثنیٰ دیں گے۔ 200 سی سی سے نیچے آٹو کی خرید پر بھی استثنیٰ ہوگا تاکہ غریب رکشہ وغیرہ خرید سکے۔ مسلم لیگ (ن) نے تو غریبوں کا نہیں سوچا، اس قانون کے باوجود اگر کوئی پراپرٹی ‘ گاڑی بیچی جائے گی تو جرمانہ رکھا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ غریب لوگوں کو مہنگی ایل پی جی مل رہی تھی۔ 30 فیصد کے لگ بھگ ڈیوٹیاں تھیں جن کو دس فیصد کر رہے ہیں۔

نان فائلرز پر بے تحاشا معلومات موجود ہیں۔ نان فائلرز کے خلاف مہم کا آغاز گزشتہ روز سے ہو چکا ہے۔ جنہوں نے بڑے بڑے گھر ‘ گاڑیاں خریدیں ان کے خلاف مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ 169 بڑے لوگوں کو نوٹس دے دیئے ہیں، یہ معاملہ ہزاروں لوگوں تک جائے گا جو لوگ فائلرز نہیں اور صاحب ثروت ہیں ان کو کہتا ہوں کہ استطاعت رکھنے والے اپنے حصے کے جائز ٹیکس ادا کریں، ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی معیاد بڑھا دی ہے، اب بھی وقت ہے ٹیکس نیٹ میں آجائیں۔

ہم یقین دلاتے ہیں کہ قوم کے پیسے سے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزر لینڈ میں جائیدادیں نہیں بنیں گی۔ یہ وزیراعظم کا وعدہ ہے عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہوگا۔ اگر نہیں تو یہ ریاست اتنی کمزور نہیں جتنی نظر آتی ہے۔ دیانتدار لوگ کرسیوں پر ہوں گے تو ریاست میں دم ہے کہ پیسے نکلوا سکے، ہم جدید طریق کار اختیار کریں گے۔ بنک اکائونٹس کی معلومات ودہولڈنگ ٹیکس کی معلومات جمع کریں گے جن لوگوں کی بڑے بڑے اکائونٹس ہیں ان کی معلومات لیں گے۔

ٹیکنالوجی بہت ایڈوانس ہوگئی ہے۔ ان کا پتہ چلائیں گے جو ٹیکس نہیں دیتے۔ ٹیکس میں تبدیلی جولائی سے کی جائے گی کیونکہ ٹیکس ایئر یہی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم فنڈ کے حوالے سے استثنیٰ کا فیصلہ نہیں تبدیل کر رہے ۔ زراعت پر تقریریں بہت ہوئی ہیں لیکن کل چار یا پانچ سفارشات میرے پاس آئی ہیں ان میں زراعت نہیں ہے، ہم چھ سے سات ارب کی سبسڈی دے رہے ہیں، ربیع کی فصل کے لئے یوریا پر سبسڈی دے رہے ہیں، ایل این جی پلانٹس پر بھی سبسڈی دے رہے ہیں۔ سیاسی تقریریں ضرور کریں لیکن قوم کو سچ بتائیں کہ آج معیشت کی صورتحال کیا ہے۔