اپوزیشن کی پیش کر دہ ترامیم کثریت رائے سے مسترد ،ْقومی اسمبلی نے ضمنی مالیاتی بل 2018ء کی منظوری دیدی

ْوفاقی حکومت کانان فائلرز کیلئے زمین اور گاڑی خریدنے پر دوبارہ پابندی عائد کرنے کا اعلان ٹیکس نادہندگان سن لیں ،ْ ریاست اتنی کمزور نہیں جتنی نظر آتی ہے ،ْ قوم کے پیسے سے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزر لینڈ میں جائیدادیں نہیں بنیں گی ،ْقوم کا پیسا قوم پر خرچ ہوگا ،ْ آئیں اور اس کا حصہ بنیں، بینکوں میں بڑی رقم رکھنے والے نان فائلرز کو پکڑیں گے ،ْدودھ اور شہد کے بہتی ہوئے نہروں کے سائے میں گزشتہ سال گردشی قرضے میں 400 ارب سے زائد اضافہ ہوا ،ْ اپوزیشن اراکین حکومت اور مجھ پر تنقید ضرور کریں مگر عوام کو سچ بھی بتائیں کہ معیشت کی صورتحال کیا ہے نان فائیلرز 200 سی سی سے نیچے موٹر سائیکل خرید سکے گا ،ْ اسد عمر کا اسمبلی میں خطاب

بدھ 3 اکتوبر 2018 19:35

:اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 اکتوبر2018ء) قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی جانب سے پیش کر دہ ترامیم کو کثریت رائے سے مسترد کرتے ہوئے ضمنی مالیاتی بل 2018ء کی منظوری دیدی جبکہ وزیر خزانہ اسد عمر نے نان فائلرز کیلئے زمین اور گاڑی خریدنے پر دوبارہ پابندی عائد کرنے کا اعلان کر تے ہوئے واضح کیا ہے کہ ٹیکس نادہندگان سن لیں ،ْ ریاست اتنی کمزور نہیں جتنی نظر آتی ہے ،ْ قوم کے پیسے سے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزر لینڈ میں جائیدادیں نہیں بنیں گی ،ْقوم کا پیسا قوم پر خرچ ہوگا ،ْآئیں اور اس کا حصہ بنیں، بینکوں میں بڑی رقم رکھنے والے نان فائلرز کو پکڑیں گے ،ْدودھ اور شہد کے بہتی ہوئے نہروں کے سائے میں گزشتہ سال گردشی قرضے میں 400 ارب سے زائد اضافہ ہوا ،ْ اپوزیشن اراکین حکومت اور مجھ پر تنقید ضرور کریں مگر عوام کو سچ بھی بتائیں کہ معیشت کی صورتحال کیا ہے نان فائیلرز 200 سی سی سے نیچے موٹر سائیکل خرید سکے گا ۔

(جاری ہے)

بدھ کو ضمنی مالیاتی بل پر وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے بحث سمیٹنے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وزیر خزانہ کو ضمنی مالیاتی بل پر تحریک پیش کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد سپیکر نے ایوان سے ضمنی مالیاتی بل کی شق وار منظوری حاصل کی ،ْ ضمنی مالیاتی بل کی کلاز 2 پر اپوزیشن کے رکن سید خورشید شاہ اور دیگر نے رائے شماری کا مطالبہ کیا جس پر سپیکر نے رائے شماری کرائی۔

گنتی کرنے پر شق 2 کے حق میں 158 اور مخالفت میں 120 ووٹ پڑے۔ اس طرح شق 2 کثرت رائے سے منظوری کرلی گئی۔ ضمنی مالیاتی بل کی شق 4 پر اپوزیشن کی جانب سے ڈاکٹر نفیسہ شاہ ‘ عبدالقادر پٹیل اور شاہدہ رحمانی نے ترامیم پیش کیں جن کی اسد عمر نے مخالفت کی۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ نان فائلرز کا معاملہ ضمنی مالیاتی بل کا متنازعہ حصہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل میں کنفیوژن ہے‘ وضاحت کی جائے کہ یہ منی بجٹ ہے یا ضمنی مالیاتی بل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دو ضروری ترامیم پیش کی ہیں جن میں سے ایک دیامر بھاشا ڈیم کیلئے چندے کے حوالے سے ہے۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ ان کی چار ترامیم ہیں ‘ ایک ترمیم یکم جولائی سے ضمنی مالیاتی بل کے اطلاق کی ہے‘انھوں نے ود ہولڈنگ ٹیکس اورحج و عمرہ کیلئے لوگوں کی بنکوں میں جمع پونجی پر ٹیکس کی بھی مخالفت کی۔ اس پر وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ان سوالات کا تفصیلی جواب دیا جاچکا ہے جس کے بعد سپیکر نے رائے شماری کرائی اور کثرت رائے سے شق 4 کی منظوری دیتے ہوئے اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کو مسترد کردیا گیا۔

کلاز 5 میں کوئی ترمیم پیش نہیں کی گئی۔ کلاز 6 میں شگفتہ جمانی نے ترمیم پیش کی جو اراکین اسمبلی کی مراعات سے متعلق ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ فنانس بل میں وزیراعظم اور وزراء کو حاصل مراعات بھی ختم کردی ہیں‘ یہ قربانی دینے کا وقت ہے۔ سپیکر نے ترمیم پر ایوان کی رائے حاصل کی ایوان نے ترمیم مسترد کردی۔ بعد ازاں وزیر خزانہ نے بل کی منظوری کے لئے تحریک ایوان میں پیش کی ،ْ ایوان نے بل کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔

قبل ازیں ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ملک ہم سب کا ہے، رائے کا اختلاف ہوسکتا ہے‘ پی ایس ڈی پی پر بہت بات کی گئی ہے‘ ترقیاتی سکیموں کے قتل عام کی بات کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے پی ایس ڈی پی کے اعداد و شمار کاغذ پر ضرور لکھے تھے لیکن اتنے پیسے خرچے نہیں ہوسکتے، حقیقت میں پی ایس ڈی پی کے تحت 661 ارب گزشتہ سال خرچ کئے گئے تھے ،ْہم گزشتہ سال سے زیادہ ترقیاتی اخراجات کریں گے‘ بلوچستان کے منصوبے صرف کاغذی تھے اور ان کی منظوری بھی نہیں ہوئی۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ بڑے نان فائلرز کے خلاف مہم کا منگل سے آغاز ہوچکا ہے اور 169 بڑے ٹیکس نادہندگان کو نوٹس جاری ہو چکے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ قوم کا پیسا قوم پر خرچ ہوگا آئیں اور اس کا حصہ بنیں، بینکوں میں بڑی رقم رکھنے والے نان فائلرز کو پکڑیں گے۔وزیر خزانہ نے گزشتہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو کام یہ 40 سال میں نہ کر سکے ہم سے پوچھتے ہیں کہ 40 دن میں کیوں نہ کیے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بیواؤں کی پنشن روکی ہوئی تھی، پی آئی اے کا جہاز اڑ نہیں سکا کیوں کہ ادارے پر قرض اتنا بڑھ چکا تھا۔

اسد عمر نے کہا کہ دودھ اور شہد کے بہتی ہوئے نہروں کے سائے میں گزشتہ سال گردشی قرضے میں 400 ارب سے زائد اضافہ ہوا، یہ گردشی خسارہ دودھ اور شہد کی نہروں کے سائے میں بڑھا، گزشتہ سال میں گردشی قرضوں میں 453 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور آج مجموعی طور ہر گردشی قرضہ 1200 ارب تک پہنچ چکا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 454 ارب روپے کا خسارہ صرف گیس کے شعبے میں ہے، تمام آئی پی پیز کہہ رہی ہیں کہ ہم میں بجلی کی پیداوار نہیں دے سکتے، آج ریاست مدینہ کا ذکر کرنے والے کاش اپنی حکومت سے بھی سوال کرلیتے۔

اسد عمر نے کہا کہ ٹرانسمیشن لائنز بچھاتے ہوئے کم ترقی یافتہ اور دور دراز علاقے نظر انداز کئے گئے، افسوس کی بات ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو لوڈشیڈنگ نے مار دیا اور کہا جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ بجلی کا بل نہیں دیتے اس لیے لوڈشیڈنگ ہے۔انہوں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ آج بجلی ہو بھی تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان تک نہیں پہنچائی جاسکتی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ تمام آئی پیز کہہ رہی ہے کہ اب ہم میں سکت نہیں اب مزید بجلی کی پیداوار نہیں دے سکتے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ زرداری صاحب کے دورمیں اسٹیل ملز کی حالت بہت خراب تھی لیکن چل پھر بھی رہی تھی،مسلم لیگ کی حکومت میں تین سال تک اسٹیل مل بند رہی۔انہوں نے معیشت کو چاروں شانے چت کردیا تھا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح اوگرا کے مطابق گیس کے نظام میں 154 ارب کا خسارہ ہے۔

گردشی قرضے اس نہج کو پہنچ گئے ہیں کہ اب ادائیگی کے لئے پیسے نہیں بچے۔ ایل سی نہیں کھل رہی، پی ایس او پی آئی اے کو تیل دینے کو تیار نہیں، بدترین معاشی پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں تو ہم نے مخالفت نہیں کی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ریاست مدینہ کی بات کی گئی، ہم تمام مسلمان اس ریاست کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، ہم نے اس نظام کی کوشش کرنی ہے جو ریاست مدینہ میں تھا، اس نظام کا بنیادی جزو انصاف تھا، جہاں خلیفہ وقت سے سوال ہو سکتا تھا آج ہمیں ریاست مدینہ کو یاد کرانے والے کاش سٹیل ملز میں لوگوں کی تنخواہیں و پنشن روکنے سے دو افراد کی خودکشیوں کو یاد رکھتے، جب وزیراعظم ہائوس کی سیکیورٹی پر کروڑوں اور کتوں کی خریداری پر 24 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل پر بحث کے دوران فائلر اور نان فائلرز کے ایشو پر بہت زیادہ بحث کی گئی۔ انہوں نے کہا تین استثنیٰ کے ساتھ نان فائلرز کے لئے سہولیات فراہم ہوں گی جن میں غیر ملکی پاکستانی ‘ وراثت‘ 200 سی سی سے نیچے موٹر سائیکلوں کی خریداری پر فائلر کی شرط لاگو نہیں ہوگی۔ غیر ملک میں مقیم پاکستانی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو ان کو استثنیٰ ملے گا ،ْوراثت کے کیسوں میں بھی استثنیٰ دیں گے۔

200 سی سی سے نیچے آٹو کی خرید پر بھی استثنیٰ ہوگا تاکہ غریب رکشہ وغیرہ خرید سکے۔ مسلم لیگ (ن) نے تو غریبوں کا نہیں سوچا، اس قانون کے باوجود اگر کوئی پراپرٹی ‘ گاڑی بیچی جائے گی تو جرمانہ رکھا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ غریب لوگوں کو مہنگی ایل پی جی مل رہی تھی۔ 30 فیصد کے لگ بھگ ڈیوٹیاں تھیں جن کو دس فیصد کر رہے ہیں۔ نان فائلرز پر بے تحاشا معلومات موجود ہیں۔

نان فائلرز کے خلاف مہم کا آغاز گزشتہ روز سے ہو چکا ہے۔ جنہوں نے بڑے بڑے گھر ‘ گاڑیاں خریدیں ان کے خلاف مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ 169 بڑے لوگوں کو نوٹس دے دیئے ہیں، یہ معاملہ ہزاروں لوگوں تک جائے گا جو لوگ فائلرز نہیں اور صاحب ثروت ہیں ان کو کہتا ہوں کہ استطاعت رکھنے والے اپنے حصے کے جائز ٹیکس ادا کریں، ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی معیاد بڑھا دی ہے، اب بھی وقت ہے ٹیکس نیٹ میں آجائیں۔

ہم یقین دلاتے ہیں کہ قوم کے پیسے سے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزر لینڈ میں جائیدادیں نہیں بنیں گی۔ یہ وزیراعظم کا وعدہ ہے عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہوگا۔ اگر نہیں تو یہ ریاست اتنی کمزور نہیں جتنی نظر آتی ہے۔ دیانتدار لوگ کرسیوں پر ہوں گے تو ریاست میں دم ہے کہ پیسے نکلوا سکے، ہم جدید طریق کار اختیار کریں گے۔ بینک اکائونٹس کی معلومات ودہولڈنگ ٹیکس کی معلومات جمع کریں گے جن لوگوں کی بڑے بڑے اکائونٹس ہیں ان کی معلومات لیں گے۔

ٹیکنالوجی بہت ایڈوانس ہوگئی ہے۔ ان کا پتہ چلائیں گے جو ٹیکس نہیں دیتے۔ ٹیکس میں تبدیلی جولائی سے کی جائے گی کیونکہ ٹیکس ایئر یہی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم فنڈ کے حوالے سے استثنیٰ کا فیصلہ نہیں تبدیل کر رہے ۔ زراعت پر تقریریں بہت ہوئی ہیں لیکن کل چار یا پانچ سفارشات میرے پاس آئی ہیں ان میں زراعت نہیں ہے، ہم چھ سے سات ارب کی سبسڈی دے رہے ہیں، ربیع کی فصل کیلئے یوریا پر سبسڈی دے رہے ہیں، ایل این جی پلانٹس پر بھی سبسڈی دے رہے ہیں۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا۔ ضمنی مالیاتی (ترمیمی ) بل 2018ء کی منظوری کے بعد سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنے کا صدارتی فرمان پڑھ کر سنایا۔