ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ ،ْسپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب ،ْسابق آئی جی کی معافی قبول کرلی ،ْعدالت نے کیس نمٹا دیا

معاملے کو جس زاویے سے بھی دیکھیں حقائق وہی رہیں گے ،ْ چیف جسٹس کے ریمارکس اگر عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے تو عدالت کے حکم کے تحت رہیں گے ،ْ عدالت عظمیٰ جہاں رول آف لاء کی بات آئے گی، میں کسی لیڈر کو نہیں مانتا،کیا آپ وکلاء ایسا رول آف لاء چاہتے ہیں ،ْاحسن بھون سے مکالمہ میں تو پانچ دن میں احسن جمیل گجر سے پریشان ہو گیا ہوں، میری طرف سے وزیراعظم کواظہار ناپسندیدگی کا بتادیں ،ْ چیف جسٹس حسن جمیل گجر یہاں گجر کی بدمعاشی نہیں چلے گی ،ْیہ پاکستان ہے، جتنے دن میں ہوں دو ڈھائی ماہ محتاط رہنا ،ْریمارکس

پیر 8 اکتوبر 2018 14:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی معافی قبول کرلی۔ پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل گجر نے نیکٹا سربراہ اور سینئر پولیس افسر خالق داد لک کی رپورٹ پر جمع کروائے گئے اپنے جوابات واپس لے لیے۔دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت عظمیٰ کو معاملہ دوسرے زاویے سے دیکھنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملے کو جس زاویے سے بھی دیکھیں حقائق وہی رہیں گے۔

(جاری ہے)

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کے روبرو کہا کہ معاملہ حساس تھا اس لیے احسن جمیل گجر نے وزیراعلیٰ سے بات کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعلیٰ نے تو ملاقات نہیں کی بلکہ پرائیویٹ شخص کو ملاقات کیلئے بلایا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس معاملے کو آسان لے رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے خالق داد لک سے متعلق کیا زبان استعمال کی ہی انہوں نے کہا کہ آپ ایک بہترین افسر کے بارے میں ایسا لکھ رہے ہیں، آپ نے انکوائری افسر پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ معافی کے دائرے سے باہر نکلتے جا رہے ہیں، میں خود اس معاملے کی انکوائری کر لیتا ہوں، کہتے ہیں تو جے آئی ٹی بنوا لیتے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت رہنے تک عثمان بزدار وزیراعلیٰ رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے تو عدالت کے حکم کے تحت رہیں گے۔

سماعت کے دوران وکیل رہنما احسن بھون روسٹرم پر آئے توعدالت نے انہیں منع کردیا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہاکہ جہاں رول آف لاء کی بات آئے گی، میں کسی لیڈر کو نہیں مانتا،کیا آپ وکلاء ایسا رول آف لاء چاہتے ہیں احسن بھون نے جواب دیا کہ میں 1980 سے احسن جمیل کو جانتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں تو پانچ دن میں اس بندے سے پریشان ہو گیا ہوں، میری طرف سے اس سے متعلق وزیراعظم کواظہار ناپسندیدگی کا بتادیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ ہے وہ حکومت جو نیا پاکستان بنانے جارہی ہے۔بعدازاں چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی کلیم امام اور وزیراعلیٰ کے دوست احسن جمیل گجر کو تحریری معافی نامے جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ معافی اسٹرانگ ورڈز میں مانگیں۔عدالت کی ہدایات کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی جانب سے عدالت میں تحریری معافی نامے داخل کرائے گئے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے ان کا معافی نامہ جمع کرایا جسے پڑھنے کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے اسے قبول کرلیا۔وزیراعلیٰ کے بعد سابق آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی جانب سے بھی معافی نامہ قبول کرایا گیا ،ْ احسن جمیل کے معافی نامہ جمع کراتے ہوئے عدالت سے کہا کہ میں شرمندگی کا اظہار کرتا ہوں اس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے دل سے معافی نہیں مانگی، احسن اقبال نے کہا کہ معافی دل سے ہی مانگی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے احسن جمیل گجر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احسن جمیل گجر یہاں گجر کی بدمعاشی نہیں چلے گی ،ْ یہ پاکستان ہے، جتنے دن میں ہوں دو ڈھائی ماہ محتاط رہنا۔عدالت عظمیٰ نے وزیراعلیٰ سمیت سابق آئی جی اور احسن جمیل کا معافی نامہ قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا جبکہ ساتھ ہی چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ اگر آئندہ ایسی شکایت ملی تو کیس دوبارہ کھول دیا جائیگا۔

عدالت نے اپنے حکم میں اتفتیشی افسر خالق داد لک کی تعریف کی۔رواں برس اگست میں خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھامعاملہ خبروں کی زینت بننے لگا تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس پر ازخود نوٹس لیا اور آئی جی پنجاب کو واقعے کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تاہم آئی جی کلیم امام کی رپورٹ میں کسی کو قصور وار نہیں ٹہرایا گیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے کلیم امام کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے واقعے کی انکوائری نیکٹا سربراہ اور سینئر پولیس افسر خالق داد لک کے سپرد کردی تھی، جنہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔