چیف جسٹس نے ملک بھر میں کچی آبادیوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے قانونی مسودے پر چاروں صوبوں سے جواب طلب کرلیا

ایک آبادی کی سوسائٹی کو ماڈل بنا کر دیگر آبادیوں کی تعمیر ہوگی ،ْاگر انظامیہ یہ کام نہیں کرتی تو پھر عدالت معاملے کو دیکھے گی ،ْ چیف جسٹس بتا دیں کہ کچی آبادی میں رہنے والے کیا کیڑے مکوڑے ہیں، لکھ کر دے دیں کہ ان کے بنیادی حقوق نہیں ہیں ،ْ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ

بدھ 10 اکتوبر 2018 16:58

چیف جسٹس نے ملک بھر میں کچی آبادیوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے قانونی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک بھر میں کچی آبادیوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے قانونی مسودے پر چاروں صوبوں سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک آبادی کی سوسائٹی کو ماڈل بنا کر دیگر آبادیوں کی تعمیر ہوگی۔ بدھ کوچیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ملک بھر کی کچی آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچی آبادیوں کی حالت کو بہتر کرنا انتظامیہ کا کام ہے، سہولیات فراہم نہیں کر سکتے تو ان کا متبادل نظام کریں اور اگر انظامیہ یہ کام نہیں کرتی تو پھر عدالت معاملے کو دیکھے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد اور چاروں صوبے اس معاملے میں شراکت دار ہیں ،ْ ہمیں اس حوالے سے کوئی قانون یا پالیسی موجود ہے تو بتایا جائے۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کی پالیسی بنائی ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 50 لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، 50 لاکھ گھر بنانے میں وقت لگے گا۔چیف جسٹس کہا کہ معلوم نہیں کہ یہ 50 لاکھ گھرکب تک تعمیر ہوں گے لیکن فوری طور پر ان لوگوں کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا آپ نے اسلام آباد کے حوالے سے کوئی معلومات اکھٹی کی ہیں، کچی آبادیوں میں تعفن پھیل رہا ہے، کچی آبادیوں کے لیے سی ڈی اے نے جگہ مخصوص کر رکھی ہے، ہمیں بتائیں انہیں متبادل جگہ فراہم کرنے میں کتنا وقت لگے گا، ابھی تو پی سی ون بنے گا فنڈ کا مسئلہ ہوگا اور بھی کئی مسائل ہوں گے لیکن فوری طور پر ان لوگوں کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم گھر میں مرغیوں یا کبوتروں کا پنجرہ بھی بنائیں تو اس کے لیے بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں، مردم شماری بھی کی ہوگی لیکن اسلام آباد کے لیے بھی کچھ کیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک کچی آبادی کی سوسائٹی کو ماڈل بنائیں گے اور پھر تمام سوسائٹیوں کو اس ماڈل کے مطابق بنایا جائے گا، ہمیں یاد ہے کہ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں کچی آبادی سے متعلق قانون بنا تھا۔

مذکورہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیکھیں گے کہ سندھ حکومت نے بھٹو کے قانون پر کتنا عمل کیا، وزیر اعلیٰ اور گورنر کے ساتھ سندھ کی کچی آبادی کا دورہ کروں گا۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتا دیں کہ کچی آبادی میں رہنے والے کیا کیڑے مکوڑے ہیں، لکھ کر دے دیں کہ ان کے بنیادی حقوق نہیں ہیں، وزیر اعظم کو جاکر بتادیں کہ 50 لاکھ مکان تو بنانے میں ہمیں کوئی شبہ نہیں لیکن جب تک وہ نہیں بنتے تب تک کچی آبادیوں کا کچھ کریں، لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

عدالتی معاون بلال منٹو نے کہا کہ پوش علاقوں میں دیواروں پر لکھا ہے کہ یہاں ملازمین کا داخلہ منع ہے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کے اندر جو کچی آبادی آجائے اس کو ہر سہولت دی جاتی ہے اور ان کے ارد گرد دیوار بنائی جاتی ہے اور اندرمارکیٹ تک بنائی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) میں بھی ایسی آبادیوں سے متعلق کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ اٹارنی جنرل سے کہیں کہ وزیر اعظم سے معلوم کریں کہ انہیں کب فراغت ملے گی کیونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس کو دیکھا جائے، ہم وزیر اعظم کو حکم نہیں دے رہے لیکن وزیراعظم اس مسئلے کو دیکھیں۔انہوںنے کہا کہ وزیراعظم اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور بنیادی حقوق کی حفاظت ان کے ذمے ہے۔سماعت کے دور ان چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اسلام آباد سے کچی آبادیاں ہٹانے پر تجاویز دیں، آپ نے ابھی تک اسلام آباد میں کچی آبادیوں کا ڈیٹا نہیں دیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاق سمیت چاروں صوبوں سے قانونی مسودے پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔