Live Updates

منی لانڈرنگ کی روک تھام اور برطانیہ میں زیر التواء مقدمات کی رفتار تیز کرنے کے لئے آئندہ ہفتے لندن میں برطانوی ایجنسی کے سربراہ سے گفت و شنید ہو گی، سابقہ حکومت نے سوئٹزر لینڈ کی حکومت سے معاہدہ کرنے میں پانچ سال ضائع کر دیئے، سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے اکائونٹس سے متعلق جامع معلومات کے حصول کے لئے کام جاری ہے، سوئس اکائونٹس میں 200 ارب ڈالر زکا اسحاق ڈار ہی بتاسکتے ہیں، ماضی میں ہر سال 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی رہی، احتساب کا عمل شفاف طریقے سے آگے بڑھایا جا رہا ہے، نیب اوردیگر ادارے آزاد ہیں اوراپنا کام احسن طریقے سے کررہے ہیں ، سیاسی مداخلت پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ماضی میں اس کی وجہ سے ادارے تباہ ہوئے ہیں، معلومات کی شیئرنگ کے لئے چین اور دبئی کی حکومت کے ساتھ معاہدے کرنے جا رہے ہیں، جرمنی کی حکومت سے سوئس بنکوں سے متعلق لیک ڈیٹا کے حصول کیلئے رابطہ کرلیا گیاہے ۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا امور افتخار درانی کے ہمراہ پریس کانفرنس

اتوار 14 اکتوبر 2018 17:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 اکتوبر2018ء) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور برطانیہ میں زیر التواء مقدمات کی رفتار تیز کرنے کے لئے آئندہ ہفتے لندن میں منظم اورسنجیدہ جرائم کے انسداد کیلئے برطانوی ایجنسی کے سربراہ سے گفت و شنید ہو گی، سابقہ حکومت نے سوئٹزر لینڈ کی حکومت سے معاہدہ کرنے میں پانچ سال ضائع کر دیئے، سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے اکائونٹس سے متعلق جامع معلومات کے حصول کے لئے کام جاری ہے، سوئس اکائونٹس میں 200 ارب ڈالر زکا اسحاق ڈار ہی بتاسکتے ہیں، ماضی میں ہر سال 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی رہی، احتساب کا عمل شفاف طریقے سے آگے بڑھایا جا رہا ہے، نیب اوردیگر ادارے آزاد ہیں اوراپنا کام احسن طریقے سے کررہے ہیں ، سیاسی مداخلت پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ماضی میں اس کی وجہ سے ادارے تباہ ہوئے ہیں، معلومات کی شیئرنگ کے لئے چین اور دبئی کی حکومت کے ساتھ معاہدے کرنے جا رہے ہیں، جرمنی کی حکومت سے سوئس بنکوں سے متعلق لیک ڈیٹا کے حصول کیلئے رابطہ کرلیا گیاہے ۔

(جاری ہے)

اتوار کو یہاں وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا امور افتخار درانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے عوام کو ماضی میں ہونے والی منی لانڈرنگ اور کرپشن کے خلاف حکومت کے اقدامات سے آگاہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اندھا دھند قرضہ لینے کی پالیسی کے نتیجے میں اس وقت ہم 30 ہزار ارب روپے کے مقروض ہیں، حکومتی شعبے میں کام کرنے والے بیشتر ادارے خسارے میں جا رہے ہیں ، سرکاری شعبے میں چلنے والے اداروں اورکارپوریشنوں کا کا خسارہ ایک ٹریلین سے زیادہ ہو چکا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ اس وقت ہمار ی سب سے زیادہ توجہ کالے دھن پر ہے جس پر سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، ہماری موجودہ معاشی صورتحال کے پیچھے سب سے بڑا کردار کالے دھن کا ہے، مختلف اداروں کی تحقیقات کے بعد تخمینے کے مطابق سالانہ 9 سے 10 ارب ڈالر کی پاکستان سے منی لانڈرنگ ہوتی رہی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر نے کہاکہ قرضوں کے بوجھ نے ملک کی صورتحال گھمبیر بنا دی ہے، پاکستان میں منی لانڈرنگ اور میگا پراجیکٹس میں کرپشن کا اہم کردار ہے، دونوں آپس میں منسلک ہیں، جس کی بہترین مثال ملتان میٹرو پراجیکٹ تھا جس میں بدعنوانی سامنے آئی تھی مگر بدقسمتی سے کام نہیں ہو سکا ، اس کے علاوہ مختلف اکائونٹس سے منی لانڈرنگ ہوتی رہی ہے، ایک کمپنی بنائی گئی جس میں تین نام سامنے آئے، عارف، اشتیاق اور اسماعیل کے نام سامنے آئے، جب ایف آئی اے نے تحقیق کی تو پتہ یہ چلا کہ یہ لوگ 20 ہزار روپے ماہانہ کی ملازمت کر رہے ہیں، مگر یہ لوگ 20 ملین سے زائد کے شیئرز کا بزنس کر رہے تھے جس کی مالیت 30 کروڑ سے زائد ہے، اس کے بعد فالودے والے کا کیس سامنے آیا، جسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے اکائونٹ سے دو ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہو چکی ہیں لیکن وہ بیچارہ آج بھی فالودے کا کاروبار کر رہا ہے، رشید رکشے والا کا کیس بھی سامنے آتا ہے جس کی صرف پانچ ٹرانزیکشن میں دو ارب روپے سے زائد کے پیسے نکالے جاتے ہیں، اس کے بعد لاڑکانہ سے ایک رضائی فروش کے کیس کا پتہ چلتا ہے، اس کے اکائونٹ سے 80 کروڑ روپے برآمد ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان چیزوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں نے اپنے مفادات اور کرپشن چھپانے کے لئے ان چیزوں کو دبائے رکھا اور اس پر کام نہیں ہونے دیا، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد ان اداروں کو مکمل طور پر با اختیار کیا اور یہی ادارے اب روزانہ کرپشن کے کیسز پکڑ کر دے رہے ہیں، ہم کرپشن کو روک کر نظام کی بحالی چاہتے ہیں اس حوالے سے ایسٹ ریکوری یونٹ بنایا گیا ہے اوریہی ادارے بہترین کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ، ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور سٹیٹ بینک آف پاکستان پر مشتمل ایک ٹیم وزیراعظم ہائوس میں بٹھا دی گئی ہے جس کی سربراہی میں کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم کرپشن کے تمام بڑے کیسز کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں، اس حوالے سے ہمارا برطانیہ کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے، آئندہ ہفتہ میںخود برطانیہ جا رہا ہوں اور میری منظم جرائم کے خلاف برطانوی ایجنسی (نیشنل کرائم ایجنسی) کے ہم منصب کے ساتھ ملاقات ہوگی میں ان سے کہوں گا کہ برطانیہ میں پاکستانیوں کے جو مقدمات زیر التواء ہیں اس پر کام کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک نے کرپشن پر کام کیا ہے اور باقاعدہ قوانین بنائے ہیں اور وہ مختلف ممالک سے معلومات شیئر کر رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم نے انفارمیشن شیئرنگ کے حوالے سے کسی سے ایم او یو سائن نہیں کئے جس کی اب ہمیں ضرورت ہے اور یہ چیز ہم کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے معاہدے ہم چین اور متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ بھی کرنے جا رہے ہیں تاکہ موثر انداز میں معلومات تک رسائی ہو سکے اور مشترکہ تحقیقات کی جا سکیں، اس طریقہ کار سے منی لانڈرنگ کو روکا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں مختلف کمپنیوں نے اپنے ملازمین یا دیگر افراد کے نام پر اکائونٹس بنا کر لانچوں یا دیگر ذرائع سے پیسہ باہر منتقل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب کا ادارہ دوبارہ بحال ہو رہا ہے اور وہ آزاد حیثیت سے کرپشن کے خلاف کام کر رہا ہے، ہماری حکومت نیب کو مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ برطانیہ کے دورے کے دوران زیر التواء کیسز جن میں اسحق ڈار کا کیس بھی شامل ہے، کے حوالے سے برطانوی حکام کے ساتھ بات چیت ہوگی ، دورہ برطانیہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے زیر التواء کیسز میں تیزی دکھائی جائے۔

ہم مختلف زاویوں سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ بیرون ملک پڑی لوٹی گئی دولت کو واپس لایا جا سکے۔ انہوں کہا کہ اگر ہم برطانیہ کے قانون کے مطابق کیس کریں گے تو سول پروسیجر کے تحت کسی بھی کیس کا فیصلہ 18 ماہ کے اندر آ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوئس بینکوں میں جمع رقومات سے متعلق معلومات کے حصول کیلئے ہم نے اپنا سفیر بھی وہاں بھیجا تاکہ ہمیں مکمل طور پر معلومات مل سکیں کہ وہاں کے بینکوں میں کتنی رقم اور وہاں کتنے اکائونٹس موجود ہیں، سابقہ حکومت نے معاہدہ کرنے میں پانچ سال ضائع کر دیئے اور اس میں پیش کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ سوئس اکائونٹس میں 200 ارب ڈالر کا اسحاق ڈار ہی بتاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ ماضی میں معاہدے پر اتفاق ہواتھا مگر یہ روبہ عمل نہیں ہوسکا تھا کیونکہ معاہدہ ہونے کے بعد ایک من گھڑت چیز اس میں ڈال دی گئی جس پر مذاکرات کی صورت میں پانچ سے چھ سال ضائع کر دیئے گئے، سوئس بینکوں کی مکمل معلومات کے لئے ہم نے جرمنی کی حکومت سے بھی درخواست کر دی ہے، اس ضمن میں پاکستان میں تعینات جرمنی کے سفیر سے بھی ملاقات ہوئی ہے کیونکہ جرمن حکومت نے 2010ء میں سوئس حکومت کا لیک ہونے والا ڈیٹا خریدا تھا جس میں تمام سوئس اکائونٹس کی معلومات موجود ہیں اور جرمنی بھارت سمیت 26 ممالک کے ساتھ وہ ڈیٹا شیئر کر چکا ہے، پاکستان ن سے اس ڈیٹا کو حاصل کرنے کے لئے آج تک ریکویسٹ ہی نہیں کی گئییھی تاہم اب تحریک انصاف کی حکومت نے اس ڈیٹا کو حاصل کرنے کے لئے جرمن حکومت سے باقاعدہ درخواست کر دی ہے۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات